Alfia alima

Add To collaction

طاؤس چمن کی مینا

طاؤس چمن کی مینا
روز کا معمول تھا۔ میں باہر سے آتا، دروازہ کھٹکھٹاتا، دوسری طرف سے جمعراتی کی اماں کے کھانسنے کھنکھارنے کی آواز قریب آنے لگتی، لیکن اس سے پہلے ہی دوڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدموں کی آہٹ دروازے پر آکر رکتی۔ ادھر سے میں آواز لگاتا، ’’دروازہ کھولو۔ کالے خاں آئے ہیں۔‘‘ 

دروازے کے پیچھے سے کھلکھلانے کی دبی دبی آواز آتی اور قدموں کی آہٹ دور بھاگ جاتی۔ کچھ دیر بعد جمعراتی کی اماں آپہنچتیں، دروازہ کھلتا اور میں گھر میں ہر طرف کچھ ڈھونڈھتا ہوا سا داخل ہوتا۔ ایک ایک کونے کو دیکھتا اور آواز لگاتا، ’’ارے بھئی، کالے خاں کی گوری گوری بیٹی کہاں ہے؟‘‘ کبھی پکارتا، ’’یہاں کوئی فلک آرا شہزادی رہتی ہے؟‘‘ اور کبھی کامنی کی شاخوں کو ہلا کر کہتا، ’’ہماری پہاڑی مینا کسی نے دیکھی ہے؟‘‘ 

ساتھ ساتھ کنکھیوں سے دیکھتا جاتا کہ ننھی فلک آرا ایک کونے سے بھاگ کر دوسرے کونے میں چھپ رہی ہے اور رہ رہ کر ہنس پڑتی ہے۔ لیکن میں اندھا بہرا بنا اسے وہاں ڈھونڈھتاجہاں وہ نہیں ہوتی تھی۔ آخر مجھے اپنے پیچھے اس کے کھلکھلاکر ہنسنے کی آواز سنائی دیتی۔ میں چیخ مار کر اچھل پڑتا، پھر گھوم کر اسے گود میں اٹھا لیتا اور وہ واقعی پہاڑی مینا کی طرح چہکنا شروع کر دیتی۔ 

روز کا یہی معمول تھا، اور یہ اس وقت سے شروع ہوا تھا جب شاہی جانوروں کے داروغہ نبی بخش نے مجھ کو قیصر باغ کے طاؤس چمن میں ملازمت دلائی تھی۔ اس سے پہلے میں گومتی کے کنارے جانوروں کے رمنوں کے آس پاس آوارہ گردی کیا کرتا، اونچے اونچے کٹہروں کے پیچھے گھومتے ہوئے شیروں تیندوئوں کو دیکھتا اور تمنا کرتا کہ کسی رمنے کا شیر کٹہرا پھاندکر باہر آئے اور مجھے پھاڑ کھائے۔ اس وقت یہی میرا روز کا معمول تھا، اور یہ اس دن سے شروع ہوا تھا جب میری بیوی گیارہ مہینے کی فلک آرا کو چھوڑ کر مر گئی تھی۔ اس سے پہلے میں وقف حسین آباد مبارک میں نوکر تھا۔ امام باڑے کی روشنیوں کا انتظام میرے ذمّے تھا۔ تنخواہ کم تھی لیکن گزر ہوجاتی تھی۔ بیوی سگھڑتھی۔ اسی تنخواہ میں گھر بھی چلاتی اور پرندے پالنے کا شوق بھی پورا کرتی تھی۔ ہمارے یہاں کئی طوطے پلے ہوئے تھے جنھیں اس نے خوب پڑھایا تھا۔ دیسی مینائیں بھی تھیں، لیکن اسے پہاڑی مینا کا ارمان تھا کیوں کہ اس نے سن رکھا تھا پہاڑی مینا بالکل آدمیوں کی طرح باتیں کرتی ہے۔ اسے خوش کرنے کے لیے میں نے وعدہ کر لیا تھا کہ اگلی تنخواہ پر اس کے لیے پہاڑی مینا لے آؤں گا۔ 

لیکن تنخواہ ملنے سے چاردن پہلے اس کے سینے میں درد اٹھا اور دوسرے ہی دن وہ چل بسی۔ میرا ہر شے سے جی اچاٹ ہوگیا۔نوکری پر جانا بھی چھوڑ دیا۔ اپنے آپ سے بیگانہ ہوگیا تھا۔ پھر بھلا فلک آرا کی پرورش کیا کرتا۔ جمعراتی کی اماں نہ ہوتیں تو اس بچی کا جینا نہ ہوتا۔ وہ میرے ہی مکان کی باہری کوٹھری میں رہتی تھیں۔ چھ مہینے پہلے ان کا کماتا ہوا جمعراتی گومتی کے کسی کنڈ میں پھنس کر ڈوب گیا تھا۔اس کے بعد سے میری بیوی ان کی خبر رکھتی تھی۔ بیوی کے بعد فلک آرا کی نگہداشت انھوں نے اپنے ذمّے لے لی تھی۔ جب تک میں گھر سے باہر رہتا وہ میرے گھر میں رہتیں،روٹی بھی پکا دیتی تھیں اور میں دو وقت کے کھانے کے علاوہ ڈلی تمبا کو کے لیے کچھ پیسے ان کے ہاتھ پر رکھ دیتا تھا۔ 

نوکری ختم ہوگئی تھی۔ حسین آباد کے داروغہ احمد علی خاں نے کئی بار آدمی بھی بھیجا لیکن میں نے پلٹ کر ادھر کا رخ نہیں کیا تو ان بے چارے نے بھی مجبور ہوکر تنخواہ موقوف کرادی اور میں مہاجنوں سے سودی قرض لے لے کر کام چلانے لگا۔ گھر صرف رات کو جاتا تھا۔ اس وقت فلک آرا سو چکی ہوتی تھی۔ صبح صبح طوطے میری بیوی کے سکھائے ہوئے بول دہراتے تو مجھے گھر میں ٹھہرنا مشکل ہو جاتا۔ آخر ایک دن میں اٹھا اور سارے پرندوں کو چڑیا بازار میں بیچ آیا۔ 

اسی زمانے میں ایک دن داروغہ نبی بخش نے مجھے پاس بلایا۔کئی دن سے وہ مجھ کو رمنوں کے پاس آوارہ گردی کرتے دیکھ رہے تھے۔ انھوں نے کچھ ایسی دل سوزی سے میرا حال دریافت کیا کہ میں نے سب کچھ بتا دیا۔ انھوں نے بڑی تسلی دی لیکن مہاجنوں سے قرض لینے کی بات پر بہت ناراض ہوئے۔ قرض ادا نہ کرنے کی صورت میںجو کچھ ہونا تھااس کا ایسا نقشہ کھینچا کہ میں بدحواس ہو گیا اور خود کو کبھی زنداں کی دیواروں سے سر ٹکراتے، کبھی ننھی بچی کی انگلی تھامے لکھنو کے گلی کوچوں میں بھیک مانگتے دیکھنے لگا۔ 

’’دیکھو کالے خاں،ابھی سویرا ہے، ‘‘داروغہ نے کہا، ’’کہیں نوکری چاکری کرلو اور قرض بھگتانے کی فکر شروع کر دو نہیں تو۔۔۔‘‘ 

’’داروغہ صاحب، مگر نوکری کہاں کر لوں؟‘‘ 

’’کیوں؟‘‘ انھوں نے کہا،’’ایک تو حسین آباد مبارک ہی کا دروازہ کھلا ہوا ہے۔‘‘ 

’’وہاں مل سکتی ہے، لیکن داروغہ احمد علی خاں سے کس طرح آنکھیں چار کروں گا۔ انھوں نے کتنی بار آدمی بلانے بھیجا، میں نے پلٹ کر نہیں دیکھا۔اب کیا منھ لے کر ان سے نوکری مانگوں۔‘‘ 

’’اچھا، باغوں میں کام کر لوگے؟‘‘ 

’’کرلوں گا،‘‘ میں نے کہا،’’گھاس کھودنے کا کام ہوگا وہ بھی کرلوں گا۔‘‘ 

’’بس، تو چلو میرے ساتھ، ابھی،‘‘انھوں نے کہا،’’ ایک اسامی خالی ہے۔‘‘ 

داروغہ اسی وقت مجھے بادشاہ منزل کے دفتروںمیں لے گئے۔ کئی جگہ میرا نام اور حلیہ وغیرہ درج کیا گیا۔ ضمانتی کی جگہ داروغہ نے اپنا نام لکھوایا۔ پھر ہم لکھّی دروازے پر پہنچے۔ یہاں سرکاری عملے کے آدمیوں، سپاہیوںوغیرہ کا ہجوم تھا۔ داروغہ نے کئی لوگوں سے صاحب سلامت کی، پھر مجھ سے کہا، ’’یہیں کھڑے رہو۔ابھی نام پکارا جائے گا۔‘‘اور دروازے پر جھولتا ہوا عنابی زربفت کا پردہ ذرا سا ہٹا کر اندر چلے گئے۔ 

میں لکھّی دروازے کی صنعتوں کو دیکھتا اور حیران ہوتا رہا۔ آخر دفتروں سے میرے کاغذات بن کر آگئے اور میرا نام پکارا گیا۔ ایک خواجہ سرانے مجھ سے کئی سوال کیے، میرے جوابوں کو کاغذات سے ملایا، پھر عنابی پردے کی طرف اشارہ کیا اور کہا، ’’طاؤس چمن میں چلے جائو۔‘‘ 

اب میں پردے کے دوسری طرف کھڑا تھا۔ اس وقت کی گھبراہٹ میں وہاں کی بہار کیا دیکھتا، کئی روشوں پر مور ناچتے گھومتے نظر آئے تو سمجھا یہی طاؤس چمن ہے۔ لیکن داروغہ نبی بخش کہیں دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کدھر کا رخ کروں۔ ہر طرف سناٹا سناٹا سا تھا۔درختوں پر اور بارہ دری کی شکل کے بڑے بڑے پنجروں میں پرندے البتہ بہت تھے۔ فاختہ اور شاما کی آوازیں رہ رہ کر آرہی تھیں۔ کبھی کبھی دور رمنوں کی طرف کوئی ہاتھی چنگھاڑدیتا تھا، بس۔ میں پریشان کھڑا ادھر ادھر دیکھ رہا تھا کہ دور پر سبز رنگ کے بہت بڑے بڑے مور کھڑے نظر آئے۔ ذرا غور سے دیکھا تو پتا چلا درخت ہیں جنھیں موروں کی صورت میں چھانٹا گیا ہے۔ 

’’طاؤس چمن،‘‘ میں نے دل میں کہا اور لپکتا ہوا وہاں پہنچ گیا۔ چمن کے پھاٹک پر بھی چاندی کے پتروں سے مور بنائے گئے تھے۔ اندر داروغہ تلے اوپر رکھی ہوئی سنگِ مر مر کی سلوں کے پاس کھڑے تھے۔ 

’’چلے آئو میاں کالے خاں،‘‘ انھوں نے مجھے پھاٹک کے باہر رکا ہوا دیکھ کر آواز دی اور میں ان کے پاس چلا گیا۔ چمن کے بیچوں بیچ میں کئی مستری ایک نیچا ساچبوترابنا رہے تھے۔ داروغہ نے انھیں کچھ ہدایتیں دیں، پھر میرا ہاتھ پکڑکر چمن کا ایک چکر لگایا۔میں ان درختوں کی چھنٹائی دیکھ کر حیران تھا۔ موروں کی ایک ایسی سچی شکلیں بنی تھیں کہ معلوم ہوتا تھا درختوں کو پگھلا کر کسی سانچے میں ڈھال دیا گیا ہے۔ تکونی کلغیاں اور نوک دار چونچیں تک صاف نظر آرہی تھیں۔ سب سے کمال کا وہ مور بنایا تھا جو گردن پیچھے کی طرف موڑ کر اپنے پروں کو کرید رہا تھا۔ ہر مور پاس پاس لگے ہوئے پتلے تنوں والے دو درختوں کو ملا کر بنایا گیا تھا۔ یہی تنے مور کے پیروں کا کام کرتے تھے، اور ان کی کچھ جڑیں اس طرح زمین پر ابھری ہوئی چھوڑ دی گئی تھیں کہ بالکل مورکے پنجے بن گئے تھے۔ داروغہ نے بتایا کہ روز اندھیرے منھ بہت سے مالی سیڑھیاں لگا کر اور پاڑ باندھ کر ایک ایک درخت کی چھنٹائی کرتے ہیں۔ میں نے تعریفوں پر تعریفیں شروع کیں تو داروغہ ہنسنے لگے۔ 

’’تم ننگے پیڑوں ہی کو دیکھ کر عش عش کر رہے ہو،‘‘انھوں نے کہا، ’’اسی مہینے تو ان کی بیلیں اتاری گئی ہیں۔ نئی بیلیں چڑھ کے پھولیں گی تب پروں کے رنگ دیکھنا۔‘‘ 

اس کے بعد وہ مجھے قریب کے ایک اور چمن میں لے گئے جس کے سب درخت شیرکی شکل کے تھے۔ 

’’یہ اسد چمن ہے،‘‘انھوں نے بتایا،’’بادشاہ نے اس چمن کے درختوں کے بھی نام رکھے ہیں۔‘‘ 

پھر وہ مجھے طاؤس چمن میں واپس لائے۔ 

’’تمھارا کام طاؤس چمن کو آینے کی طرح رکھنا ہے،‘‘انھوں نے کہا اور ادھورے چبوترے کی طرف اشارہ کیا،’’اس کی تیاری کے بعد کام کچھ بڑھے گا،بڑھ کر بھی آدھے دن سے زیادہ کا نہ ہوگا۔ تمھاری باری ایک ہفتہ صبح سے دوپہر، ایک ہفتہ دوپہر سے مغرب تک۔‘‘ 

انھوں نے میرے کاموں کی کچھ تفصیل بتائی۔آخر میں کہا، ’’آج سے تم سلطانِ عالم کے ملازم ہوئے۔اللہ مبارک کرے۔ بس اب گھر جائو۔ کل سے آنا شروع کر دو، اور یہ واہی تباہی پھر نا چھوڑو۔‘‘ 

میں ان کو دعائیں دینے لگا۔ 

’’کیسی باتیں کرتے ہو،‘‘ انھوں نے کہا اور مستریوں کو ہدایتیں دینے لگے۔ 

(۲) 

بیوی کے مرنے کے بعداس دن پہلی بار میں نے اپنی فلک آرا کو غور سے دیکھا۔ اس نے بالکل ماں کا رنگ روپ پایا تھا۔ یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ چینی کی گڑیا سی بچی اس کالے دیو کی بیٹی ہے جسے لوگ شیدیوں کے احاطے کا کوئی حبشی سمجھ لیتے ہیں۔مجھے فلک آرا پرترس آیا اور خود پر غصہ بھی کہ ماں سے بچھڑ کر یہ ننھی سی جان اتنے دن تک باپ کی محبت کو بھی ترستی رہی۔ مگر خیر، دو ہی تین دن میں وہ مجھ سے ایسا ہل گئی کہ اپنی ماں سے بھی نہ ہلی ہوگی، اور میں بھی بس کسی کسی دن بازار کی سیر کر لینے کے سوا کام پر سے سیدھاگھر آتا اور دروازے کے پیچھے اس کے دوڑتے ہوئے چھوٹے چھوٹے قدموں کی آہٹ کا انتظار کرتا تھا۔ 

میں اس کے لیے بازار سے کچھ نہیں لاتا تھا۔ تنخواہ حالانکہ حسین آباد سے زیادہ ملتی تھی لیکن قرضوں کی واپسی میں اتنی کٹ جاتی تھی کہ بس دال روٹی بھر کا خرچ نکل پاتا تھا۔ خود اس نے ابھی فرمائشیں کرنا نہیں سیکھا تھا۔ لیکن ایک دن مجھ سے باتیں کرتے کرتے اچانک بولی، ’’ابا، اللہ ہمیں پہاڑی مینا لادو۔‘‘ 

میں چپ رہ گیا۔بیوی کے مرنے کے بعد میں نے قسم سی کھالی تھی کہ اب گھر میں کوئی پرندہ نہیں پالوں گا، پھر بھی جب میں نے دیکھا کہ وہ امید بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہی ہے تو میں نے کہا، ’’ہم اپنی پہاڑی مینا کو اس کی پہاڑی مینا لاکے بالکل دیں گے۔‘‘ 

اس دن سے وہ اپنی مینا کا انتظار کرنے لگی۔ایک دن میں نے چڑیا بازار کا ایک پھیرا بھی کیا۔ پہاڑی مینا کے دام دیسی مینا سے زیادہ تھے، اتنے زیادہ بھی نہیں کہ میں مول نہ لے سکتا،لیکن جتنی تنخواہ اس وقت ہاتھ آتی تھی اس میں نہیں لے سکتا تھا۔میں چڑیوں سے ذراہٹ کر پنجرے والوں کے قریب چلا گیا۔ گاہکوں کی بھیڑ تھی اور اس بھیڑمیں اس دن پہلی بار میں نے حضور عالم کے ایجاد ی قفس کا ذکر سنا۔لوگوں کی باتوں سے مجھے معلوم ہوا کہ وہ بادشاہ کو نذر کرنے کے لیے بہت دن سے ایک بڑا پنجرا بنوارہے ہیں۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ لکھنو میں ہر طرف اس کا چرچا ہے۔چڑیا بازار کے ان گاہکوں میں سے کئی نے اسے بنتے دیکھنے کا دعویٰ کیا اور یہ بھی کہا کہ ان کی سمجھ میں نہیں آتا اتنا بڑا پنجرا قیصر باغ میں پہنچایا کس طرح جائے گا۔ اس پر ایک پرانے بڈھے نے کہا، ’’اے میاں یہ وزیروں کے معاملے ہیں۔یہ چاہیں تو سلطنت اِدھر سے اُدھر پہنچا دیں۔ آپ اتّی سی پنجری کے لیے ہلکان ہورہے ہیں۔‘‘ 

سب لوگ ہنسنے لگے۔ پنجرا دیکھنے کا ایک دعویدار بولا، ’’بڑے میاں،آپ بے دیکھے کی بات کررہے ہیں۔ پنجری؟ اجی اگر آپ نے اس کی اونچائی۔۔۔‘‘ 

’’کتنی ہوگی؟رومی دروازے سے زیادہ؟‘‘ 

’’رومی دروازہ تو خیر،لیکن حسین آباد کے پھاٹکوں سے کم نہ ہوگی۔‘‘ 

’’بس؟‘‘ بڑے میاں بولے۔’’پھر اسے تو وہ بائیں ہاتھ کی چھنگلیامیں لٹکا کر رومی دروازے کے اوپر۔۔۔‘‘ 

قہقہے لگنے لگے اور میں وہاں سے گھر چلا آیا۔ 

دوسرے ہی دن میں نے طاؤس چمن میں بھی حضور عالم کے ایجادی قفس کا ذکر سنا۔چبوترا تیار ہو گیا تھا۔چمن کی ہریالی میں اس کی چمکیلی سنگین سفیدی آنکھوں کو بھلی بھی لگتی تھی اور چبھتی بھی تھی۔ داروغہ نبی بخش نے مجھے بتایا کہ قفس اسی چبوترے پر رکھا جائے گا۔ 

’’مگر داروغہ صاحب،‘‘میں نے پوچھا،’’اتنا بڑا قفس یہاں تک پہنچے گا کس طرح؟‘‘ 

’’ٹکڑوں ٹکڑوں میں آرہا ہے بھائی۔‘‘داروغہ نے بتایا،’’پھر یہیں جوڑا جائے گا۔حضور عالم کے آدمی آتے ہوں گے۔ اب یہاں ان کا تصرف ہوگا۔ رات بھر کام کریں گے، کل قفس میں جانور چھوڑے جائیں گے۔۔۔‘‘ 

’’جانور چھوڑے جائیں گے یا بند کیے جائیں گے؟‘‘میں نے ہنس کر کہا۔ 

’’ایک ہی بات ہے۔ اماں زبان کے کھیل چھوڑو اور مطلب کی سنو۔ حضور عالم تو خیر آہی رہے ہیں، عجب نہیں حضرت سلطانِ عالم بھی تشریف لائیں۔ کل سے تمھارا اصلی کام شروع ہوگا۔تمھیں ایجادی قفس اور اس کے جانوروں کی نگاہ داری پر رکھا گیا ہے۔کیا سمجھے؟ اور کل آئیے گا ضرور۔کہیں چھٹی نہ لے بیٹھیے گا۔‘‘ 

اسی وقت ایک چوبدار طاؤس چمن میں داخل ہوا۔ اس نے داروغہ کے پاس جاکر چپکے چپکے کچھ باتیں کیں۔ داروغہ نے جواب میں کہا، ’’سر آنکھوں پر آئیں۔ہمارا کام پورا ہوگیا۔‘‘ انھوں نے چبوترے کی طرف اشارہ کیا، پھر مجھ سے کہا،’’ چلو بھائی۔ قفس کے لیے چمن چھوڑو۔‘‘ 

دوسرے دن میں وقت سے بہت پہلے گھر سے نکل کھڑا ہوا۔ ننھی فلک آرا نے روز کی طرح چلتے چلتے یاد دلایا، ’’ابا،ہماری پہاڑی مینا۔۔۔‘‘ 

’’ہاں بیٹی، بالکل لائیں گے۔‘‘ 

’’آپ روز بھول جاتے ہیں گے،‘‘اس نے ٹھنک کر کہا اور میں دروازے سے باہر آگیا۔ 

کچھ دور جانے کے بعد میں نے مڑ کر دیکھا۔ وہ دروازے کا ایک پٹ پکڑے مجھ کو دیکھ رہی تھی، بالکل اسی طرح جیسے اس کی ماں مجھے نوکری پر جاتے دیکھا کرتی تھی۔ 

رمنوں کے پاس سے ہوتا ہوا قیصر باغ کے شمالی پھاٹک میں، وہاں سے لکھی دروازے میں داخل ہوا اور سیدھا طاؤس چمن پہنچا۔ آج وہاں بڑی چہل پہل تھی۔ چمن کے باہر سپاہیوں کا پہرا تھااور داروغہ نبی بخش ان سے باتیں کررہے تھے۔ مجھے دیکھتے ہی بولے، ’’آؤ بھئی کالے خاں، دیکھا میں نے کیا کہا تھا؟ حضرت سلطانِ عالم تشریف لا رہے ہیں۔ تم نے اچھا کیا جو آج سویرے سے آگئے۔ میں آدمی دوڑایا ہی چاہتا تھا۔‘‘ 

پھر وہ مجھے لے کر طاؤس چمن میں داخل ہوئے۔ سامنے ہی چبوترے پر حضور عالم کا ایجادی قفس نظر آرہاتھا۔ میں سمجھتا تھا یہ قفس کوئی بڑاسا، خوبصورت پنجرا ہوگا،بس۔مگر اسے دیکھ کر میری تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ قفس کیا تھا ایک عمارت تھی۔ اس کا ڈھانچہ کوئی چارچار انگل چوڑی پٹریوں سے تیار کیا گیا تھا۔ پٹریاںایک رخ سے لال، دوسرے رخ سے سبز تھیں۔ معلوم نہیں لکڑی کی تھیں یا لوہے کی، لیکن ان پر روغن ایسا کیا گیا تھا کہ لعل اور زمرد کا دھوکا ہوتا تھا۔ جس دیوار کی پٹریاں باہر لال، اندر سبز تھیں اس کے مقابل والی دیوار کی پٹریاں باہر سے سبز، اندرسے لال رکھی گئی تھیں۔ اس طرح ایک طرف سے دیکھنے پر پورا قفس لال نظر آتا تھا، دوسری طرف سے جاکر دیکھو تو سبز۔ پٹریوں کے بیچ کی جگہوں میں پھولوں اور پرندوں کی شکلیں بناتی ہوئی روپہلی تیلیاں اور تیلیوں کی بیچ کی جگہوں میں سنہرے تاروں کی نازک جالیاں تھیں۔ ہر طرف چھوٹے دروازے اور کھڑکیاں بنائی گئی تھیں۔ اصل دروازہ قدِآدم سے اونچا تھا اور اس کی پیشانی پر دوجل پریاں شاہی تاج کو تھامے ہوئے تھیں۔چھت کے چاروں کونوں پر روپہلی برجیاں اور بیچ میں بڑا سا سنہرا گنبد تھا۔گنبد کے کلس پر بہت بڑا چاند تھا۔ برجیوں کی کلسیاں تلے اوپر بیٹھائے ہوئے ستاروں سے بنائی گئی تھیں۔ 

قفس کے بڑے دروازے سے کچھ ہٹ کر دس دس کی چار قطاروں میں چھوٹے چھوٹے گول پنجرے رکھے ہوئے تھے اور ہر پنجرے میں ایک پہاڑی مینا تھی۔ داروغہ نے کہا، ’’انھیں اچھی طرح دیکھ لو کالے خاں، اصیل پہاڑی مینائیں ہیں، مینائیں نہیں سونے کی چڑیاں ہیں، بادشاہ نے خاص اس قفس کے لیے مہیا کرائی ہیں۔ انھیں شہزادیاں سمجھو۔‘‘ 

پنجروں کے سامنے صندل کی ایک اونچی نازک سی میز تھی جس پر ہاتھی دانت سے پھول پتیاں اور طرح طرح کی چڑیاں بنی ہوئی تھیں۔ 

’’اچھا اب اِدھر دیکھو،‘‘داروغہ نے میز کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا،’’اس پر ایک ایک پنجرا رکھا جائے گا۔ حضرت ملاحظہ فرماتے جائیں گے۔ تم یہاں دروازے کے پاس کھڑے ہوگے۔حضرت کے ملاحظے کے بعد ہر پنجرا ہاتھوں ہاتھ ہوتا ہوا تمھارے پاس آئے گا۔ تمھارا کام جانور کو پنجرے سے نکال کر قفس میں ڈالنا ہوگا۔یہ بہت چوکسی کا کام ہے۔ذرا ڈھیلے پڑے اور چڑیا پھررر۔۔۔‘‘ 

’’فکر نہ کیجیے استاد،‘‘میں نے کہا،’’ہزار چڑیاں اس پنجرے سے اس پنجرے میں کر دوں، مجال ہے جوہاتھ بہک جائے۔‘‘ 

’’سچ کہتے ہو بھائی، ‘‘داروغہ بولے۔’’پھر بھی،حضرت کا سامنا ہوگا، ذرا اوسان ٹھکانے رکھنا۔‘‘ 

اس کے بعد وہ باہر چلے گئے اور میں پھر قفس کو دیکھنے لگا۔اندرسے وہ ایک چھوٹا ساقیصر باغ ہو رہا تھا۔ فرش پر سنگِ سرخ کی بجری بچھی ہوئی تھی۔ بیچ میں پانی سے بھرا ہوا حوض جس میں چھوٹی چھوٹی سنہری کشتیاں تیر رہی تھیں اور ان کشتیوں میں بھی تھوڑا تھوڑا پانی تھا۔ فرش پر لال سبز چینی کی نیچی نیچی ناندوں میں پتلی لمبی شاخوں والے چھوٹے قد کے درخت تھے۔ دیواروں سے ملی ملی بسنت مالتی، بشن کانتا، جوہی اور کچھ ولایتی پھولوں کی بیلیں تھیں۔ ان میں ٹہنیوں سے زیادہ پھول تھے اور انھیں اس طرح چھانٹا گیا تھا کہ قفس کی صنعتیں ان میں چھپ جانے کے بجائے اور ابھر آئی تھیں۔ جگہ جگہ ستاروں کی وضع کے آئینے جڑے تھے جن کی وجہ سے قفس میں جدھر دیکھو پھول ہی پھو ل نظر آتے تھے۔ پانی کے کاسے، دانے کی کٹوریاں، ہانڈیاں، چھوٹے چھوٹے جھولے، گھومنے والے اڈّے، پتلے پتلے مچان اور آشیانے ہر طرف تھے اور انھیں سے معلوم ہوتا تھا کہ یہ جگہ پرندوں کے لیے ہے۔ 

ہوا چل رہی تھی اور پورا قفس بہت ہلکی آواز میں جھنجھنا رہا تھا۔ مجھے محسوس ہوا کہ طاؤس چمن میں اچانک خاموشی چھاگئی ہے اور میں چونک پڑا۔ میں نے دیکھا بادشاہ حضور عالم اپنے خاص خاص مصاحبوں کے ساتھ طاؤس چمن میں داخل ہورہے ہیں۔ سب سے پیچھے داروغہ نبی بخش سینے پر ہاتھ باندھے، سر جھکائے چل رہے تھے۔ صندل کی میز کے پاس آکر بادشاہ رکے اور دیر تک قفس کو دیکھتے رہے۔ 

’’واہ!‘‘ انھوں نے کہا، پھر وزیر اعظم کو دیکھا،’’حضور عالم ،یہ ہمارے ہی یہاں کا کام ہے؟‘‘ 

’’جہاں پناہ،‘‘حضور عالم سینے پر ہاتھ رکھ کر جھکے اور بولے، ’’ایک ایک تار لکھنو کے کاریگروں کا موڑا ہوا ہے۔‘‘ 

’’انھیں کچھ اوپر سے بھی دیا؟‘‘ 

’’سلطانِ عالم کے تصدق میں ایک ایک کی سات سات پشتیں کھائیں گی۔‘‘ 

’’اچھا کیا،‘‘ بادشاہ بولے،’’تو کچھ بڑھا کے ہم سے بھی دلوادیجیے۔‘‘ 

حضور عالم اور زیادہ جھک گئے۔میں بادشاہ کے چہرے کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ کوئی بھی نہیں دیکھ رہا تھا۔سب آنکھیں جھکائے، ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔کچھ دیر بعد مجھے بادشاہ کی آواز سنائی دی، ’’لائو بھئی نبی بخش۔‘‘ 

میں نے داروغہ کی طرف دیکھا۔انھوں نے سراور ابروئوں کو بہت خفیف سی جنبش دے کر مجھے سنبھل جانے کا اشارہ کیا۔ ان کے پیچھے سے کسی ملازم نے پہلا پنجرا بڑھایا۔ داروغہ نے اسے دونوں ہاتھوں میں سنبھالا اور دو قدم آگے بڑھ کر شیشے کے کسی نازک برتن کی طرح بہت احتیاط سے میز پر رکھ دیا اور پیچھے ہٹ گئے۔بادشاہ نے پنجرا ہاتھ میں اٹھا لیا۔مینا پنجرے میں ادھر ادھر پھدک رہی تھی۔ بادشاہ نے ہنس کر کہا، ’’ذرا قرار تو لو،چلبلی بیگم!‘‘اور پنجرا واپس میز پر رکھ دیا۔ 

ایک مصاحب نے پنجرا اٹھا کر دوسرے مصاحب کو دیا، دوسرے نے تیسرے کو، اور آخر میں پنجرا میرے پاس آگیا۔ میں نے اسے قفس کے دروازے کی جھری کے قریب کیااور بڑی پھرتی کے سا تھ چلبلی بیگم کو نکال کر قفس میں ڈال دیا۔ایک اور ملازم نے خالی پنجرا میرے ہاتھ سے لے لیا۔ اتنی دیر میں میز پر دوسرا پنجرا آگیا تھا۔ بادشاہ نے اسے بھی ہاتھ میں اٹھایا۔اس کی مینا اڈے پر سر جھکائے بیٹھی تھی۔ بادشاہ نے اسے ہلکی سی چمکاری دی تو اس نے اور زیادہ سر جھکالیا۔بادشاہ نے کہا، ’’اے بی، صورت تو دیکھنے دو۔‘‘پھر پنجرا میز پر رکھ کر بولے،’’یہ حیادار دلھن ہیں۔‘‘ 

پھر یہ پنجرا میرے پاس آیا اور میں نے حیادار دلھن کو بھی قفس میں پہنچا دیا۔ اسی طرح ایک کے بعد ایک مینائیں بادشاہ کے پاس آتی رہیں اور وہ ان کے نام رکھتے رہے۔ کسی کا نام نازک قدم رکھا،کسی کا آہوچشم،کسی کا بروگن؛ ایک پنجرا جیسے ہی بادشاہ کے ہاتھ میں آیا اس کی مینا نے پر پھڑ پھڑا کر چہچہانا شروع کر دیا۔ بادشاہ نے اس کا نام زہرہ پری رکھا۔ دیر تک پنجرے میرے ہاتھ میں آتے اور میناؤں کے نام میرے کان میں پڑتے رہے۔ بادشاہ کی موجودگی سے شروع شروع میں مجھے جو گھبراہٹ ہورہی تھی وہ اب کچھ کم ہوگئی تھی اور میں ہر مینا کو قفس میں ڈالنے سے پہلے ایک نظر دیکھ بھی لیتا تھا۔ مجھ کو سب مینائیں ایک سی معلوم ہو رہی تھیں، لیکن بادشاہ کو ہر ایک میں کوئی نہ کوئی بات سب سے الگ نظر آتی اور اسی کے لحاظ سے اس کا نام رکھتے تھے۔ بائیس تیئیس پنجروں کے بعد اچانک میں نے بادشاہ کی آواز سنی، 

’’فلک آرا۔‘‘ 

اور ایک پنجرا میرے ہاتھ میں آگیا۔ میں نے دل ہی دل میں دہرایا، ’’فلک آرا،‘‘اور اس مینا کو غور سے دیکھا۔ وہ بھی دوسری میناؤں کی طرح تھی، میری سمجھ میں نہیں آیاکہ بادشاہ نے اس کا نام فلک آرا کیوں رکھا ہے۔ مینا کو دیکھ کر انھوں نے جو کچھ کہا ہوگا وہ میں سن نہیں پایا تھا۔ میں نے فلک آرا کو اور غور سے دیکھا۔ وہ گردن اٹھائے پنجرے میں بیٹھی تھی۔ اس نے بھی مجھ کودیکھا اور مجھے ایسا معلوم ہوا کہ میں اپنی ننھی فلک آرا کو دیکھ رہا ہوں۔ اس میں مجھے کچھ دیر لگ گئی اورابھی پنجرا میرے ہاتھ میں اور چڑیا پنجرے ہی میں تھی کہ میں نے دیکھا اگلا پنجرا میری طرف آرہا ہے۔ میں نے بوکھلا کر فلک آرا کو ایسے بے تکے پن سے قفس میں ڈالا کہ وہ میرے ہاتھ سے چھوٹتے چھوٹتے بچی۔ خیرت گزری کہ کسی نے دیکھا نہیں اور فلک آرا قفس میں پہنچ کر ایک جھولے پر بیٹھ گئی۔ 

اس کے بعد سولہ سترہ پنجرے اور آئے۔ ہر مینا کو قفس میں ڈالنے سے پہلے میں ایک نظر فلک آرا پر ضرور ڈال لیتا تھا۔ وہ اسی طرح جھولے پر بیٹھی ہوئی تھی اور مجھے دیکھ رہی تھی۔ اس وقت مجھے یہ دیکھ کر تعجب ہوا کہ اگرچہ میں اس میں اور دوسری میناؤں میں کوئی فرق نہیں بتا سکتا لیکن اسے سب میناؤں سے الگ پہچان سکتا ہوں۔ 

چالیسوں مینائیں قفس میں پہنچ چکی تھیں اور ادھر سے ادھر اڑتی پھر رہی تھیں۔ کچھ دیر بعد فلک آرا نے بھی اپنے جھولے پر ہلکی سی اڑان بھری اور قفس کے پوربی حصے میں ایک ٹہنی پر جا بیٹھی۔بادشاہ دھیمی آواز میں داروغہ کو کچھ سمجھا رہے تھے کہ رمنوں کی طرف سے ایک شیر کی دہاڑ سنائی دی۔ بادشاہ نے بولتے بولتے رک کر پوچھا، ’’یہ موہنی کس پر بگڑ رہی ہیں نبی بخش؟ ‘‘ 

داروغہ چپکے سے مسکرائے اورسر ذرا نیچے کر کے آنکھیں مٹکاتے ہوئے بولے، ’’غلام جان کی امان پاوے تو عرض کرے۔‘‘ 

’’بتائو بتائو۔‘‘ 

’’وہ سلطانِ عالم ہی پر بگڑ رہی ہیں۔‘‘ 

’’ارے ارے،ہم نے کیا کیا ہے بھئی؟‘‘بادشاہ نے پوچھا، پھر ان کا چہرہ خوشی سے دمکنے لگا،’’اچھا اچھا، ہم سمجھ گئے۔ آج ہم ان سے ملے بغیر سیدھے ادھر جو چلے آئے،یہی بات ہے نہ؟‘‘ 

داروغہ سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر جھک گئے اور بولے، ’’سلطان عالم سے زیادہ ان کی ادائیں کون پہچانے گا۔ اسی پر ناز دکھاتی ہیں۔ پھر بیماری سے اٹھی ہیں،اس سے اور کھنکھنی ہورہی ہیں۔غلام کی تو بات ہی نہیں سنتیں۔‘‘ 

’’سچ کہتے ہو،‘‘بادشاہ نے کہا، مصاحبوں کی طرف دیکھا، پھر حضور عالم کی طرف، پھر نبی بخش کی طرف اور بولے، ’’تو چلو بھئی، ان کو منائیں۔‘‘ 

سب لوگ اور ان کے پیچھے پیچھے داروغہ بھی چمن سے باپر نکل گئے۔ اتنی دیر میں ملازموں نے دانے کی تھیلیاں اور پانی کے بڑے بدھنے لاکر قفس کے دروازے کے پاس رکھ دیے تھے۔ میں نے دروازہ ذرا سا کھولااور ترچھا ہو کر قفس میں داخل ہو گیا۔ ایک چھوٹے دروازے سے ہاتھ بڑھا بڑھا کر تھیلیاں اور بدھنے اٹھالیے اور سب برتنوں میں دانہ پانی بھر دیا۔ مینائیں اڑتی ہوئی ایک ٹہنی سے دوسری ٹہنی پر بیٹھ رہی تھیں۔ سب اسی طرح ایک سی نظر آرہی تھیں، لیکن فلک آرا کو میں نے پھر پہچان لیا اور اس کے پاس کھڑا کچھ دیر اسے چمکارتا رہا۔ 

’’میں تمھیں فلک مینا کہوں گا،‘‘میں نے اسے چپکے سے بتایا۔ 

قفس سے باہر نکل کر میں طاؤس چمن کی حدبندی کرنے والی بغیوں میں پہنچا جنھیں جالی سے گھیرکر اوپر جالی ہی کی چھتیں بنائی گئی تھیں۔ ان میں طرح طرح کی ہزاروں چڑیاں چہک رہی تھیں۔ یہاں بھی میں نے دانے پانی کے برتن بھرے، زمین کی صفائی کی، چھوٹی جھاڑیوں پر پانی کے چھینٹے دیے اور طاؤس چمن میں چلا آیا۔ 

داروغہ رمنوں سے واپس آگئے تھے اور قفس کے پاس کھڑے شاید میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ 

’’چلو بھائی، یہ مہم بھی سر ہوئی،‘‘انھوں نے کہا اور قفس کو چاروں طرف سے گھوم پھر کر دیکھنے لگے۔ 

’’ہمارے شہر میں بھی کیسا کیسا کاریگر پڑا ہے، داروغہ صاحب،‘‘میں نے کہا۔ 

لیکن داروغہ قفس کی سیر دیکھنے میں محوتھے۔ 

’’اتنا ہم کہیں گے،‘‘آخر وہ بولے،’’حضور عالم نے اسے جی لگا کر بنوایا ہے۔‘‘ 

(۳) 

طاؤس چمن میں میراکام کچھ مشکل نہیں تھا۔ تھوڑے دنوں میں مجھ کو ہر بات کاڈھپ آگیا۔ میں جلدی کام ختم کر لیتا اور جتنا وقت بچتا وہ قفس کی مزیدصفائی ستھرائی میں لگا دیتا تھا۔ مینائیں اب مجھ کو اچھی طرح پہچاننے لگی تھیں اور مجھے دیکھتے ہی دانے کے خالی برتنوں کے پاس بیٹھنا شروع کردیتی تھیں۔فلک میناکو شاید اندازہ ہو گیا تھا کہ اس پرمیری خاص توجہ ہے۔ وہ مجھ سے بہت ہل گئی تھی، مجھے قفس کے دروازے پر دیکھ کر قریب آتی اور سب میناؤں سے پہلے چہچہاتی تھی۔ 

ایک دن محلاّت میں معلوم نہیں کیا تھا کہ طاؤس چمن اور ایجادی قفس کی سیر کو کوئی نہیں آیا۔ میں نے اپنا سارا کام ختم کر لیا تھا اور اب قفس کو ذرا پیچھے ہٹ کر دیکھ رہا تھا۔حوض میں تیرتی ہوئی دو کشتیاں آپس میں مل گئی تھیں اور دیکھنے میں اچھی نہیں معلوم ہو رہی تھیں۔میں ایک بار پھر قفس میں داخل ہوا اور کشتیوں کو الگ الگ کر کے وہیں کھڑا رہا۔ 

چہچہاتی ہوئی مینائیں قفس بھر میں اڑتی پھر رہی تھیں۔ سب کے پوٹے بھرے ہوئے تھے اس لیے کسی کی توجہ میری طرف نہیں تھی۔ لیکن فلک مینا بار بارمیرے قریب آتی، زور زور سے بولتی، پھر دور کسی اڈے پر بیٹھ جاتی، پھر وہاں سے اڑان بھر کر میری طرف آتی، بولتی اور دور بھاگ جاتی۔ بالکل ا سی طر ح میری اپنی فلک آرا کسی کسی دن مجھ سے کھیل کرتی تھی۔ مجھے یہ سوچ کر اس پر بڑاترس آیا کہ روز میں جب واپس گھر پہنچتا ہوں تو وہ مجھ سے بھاگ کر چھپنے کے بجائے دروازے ہی پر ملتی ہے اور پوچھتی ہے، ’’ابا ہماری مینا لائے؟‘‘ اور میرے خالی ہاتھ دیکھ کر اداس ہو جاتی ہے۔ اس کا اتراہوا چہرہ میری نگاہوں کے سامنے گھومنے لگا۔اچانک میرے دل میں برائی آگئی اور میں نے کچھ اور ہی سوچنا شروع کر دیا۔ قفس میں چالیس مینائیں اڑتی پھرتی ہیں۔ ان کی صحیح صحیح گنتی کرنا آسان نہیں۔ آسان کیا، ممکن ہی نہیں۔ ستاروں کی شکل والے آئینے ایک ایک کو دس دس کر کے دکھاتے ہیں۔ یوں بھی چالیس اور انتالیس میں فرق ہی کون سا ہے؟ ایک مینا کم ہو جائے تو کسی کو پتا بھی نہ چلے گا۔ اسی وقت فلک مینا میرے قریب آکر بولی اور میں نے ہاتھ لپکا کر اسے بہت آہستگی کے ساتھ پکڑلیا۔ اس کے پروں کو سہلاتا ہو امیں قفس کے ایک گوشے میں آگیا اور اڑتی ہوئی میناؤں کو گننے لگا۔بار بار گننے پر بھی پتا نہیں چل پایا کہ مینائیں چالیس ہیں یا انتالیس۔ مجھے اطمینان ہو گیا۔فلک مینا کو میں نے ایک جھولے پر بٹھا کر ہلکا سا پینگ دیا اور قفس سے باہر نکل آیا۔ 

اس دن لکّھی دروازے سے نکلتے نکلتے میں فلک مینا کو گھر لے آنے کا پکا فیصلہ کر چکا تھا اور اسے ایک معمولی ساکام سمجھ رہا تھا جس میں مجھ کو شرم یا پشیمانی والی کوئی بات نظر نہیں آرہی تھی، بلکہ شرمندگی تھی تو صرف اپنی فلک آرا سے کہ میں اتنے دن خواہ مخواہ اسے مینا کے لیے ترساتا رہا،اور پچھتاوا تھا تو فقط اس کا کہ فلک مینا کو آج ہی قفس سے کیوں نہیں نکال لایا۔ 

چڑیا بازار میں رک کر میں نے تھوڑے مول تول کے بعد ایک سستا سا پنجرا خرید لیا۔پنجرے والے نے پیسے گنتے گنتے پوچھا، ’’کون سا جانور ہے؟‘‘ 

’’پہاڑی مینا۔‘‘ میں نے کہا اور میرا دل آہستہ سے دھڑکا۔ 

’’پہاڑی مینا پالی ہے تو شیدی صاحب پنجڑا بھی ویسا ہی رکھناتھا‘‘ اس نے کہا۔ 

’’خیر،آپ کی خوشی۔‘‘ 

میں پنجرا لے کر آگے بڑھ گیا، لیکن چند ہی قدم چلا ہوں گا کہ ہاتھ پائوں سنسنانے لگے اور گلا خشک ہوگیا۔ایسا معلوم ہو رہا تھا جیسے کوئی میرے کان میں کہہ رہا ہو،’’کالے خاں!بادشاہی پرندے کی چوری؟‘‘ راستے بھر مجھ کو یہی آواز سنائی دیتی رہی۔کئی بار ارادہ کیا پنجرا پھیرآئوں، پھر خیال آیا فلک آرا کو کسی طرح خالی پنجرے سے بہلالوں گا۔ گھر پہنچتے پہنچتے مجھے خود پر حیرت ہونے لگی کہ میں نے ایسی خطرناک بات کا ارادہ کیا تھا۔ خوشی بھی بہت ہو رہی تھی کہ میں نے فلک مینا کو قفس سے نکال نہیں لیا۔ 

یقین مجھے اب بھی تھا کہ ایک مینا کی چوری پکڑی نہیں جا سکتی تھی پھر بھی معلوم ہورہا تھا موت کے منھ سے نکل آیا ہوں۔ 

گھر پہنچا تو فلک آرامیرے ہاتھ میں پنجرا دیکھ کر خوشی سے چیخ پڑی، ’’ہماری مینا آگئی!‘‘ 

لیکن جب وہ دوڑتی ہوئی میرے قریب آئی تو پنجرا خالی دیکھ کر پھر اس کا چہرہ اترگیا۔اس نے میری طرف دیکھا اور روہانسی ہوگئی۔میں نے اسے گود میں اٹھا لیا اور کہا، ’’بھئی آج پنجرا آیا ہے،کل مینا بھی آجائے گی۔‘‘ 

’’نہیں،‘‘اس نے کہا،’’آپ جھوٹ بہت بولتے ہیں گے۔‘‘ 

’’جھوٹ نہیں بیٹی، کل دیکھنا،‘‘میں نے کہا،’’تمھاری مینا ہم نے لے بھی لی ہے۔‘‘ 

’’سچّی؟‘‘وہ چہک کر بولی اور اس کا چہرہ خوشی سے چمکنے لگا،’’تو وہ کہاں ہے؟‘‘ 

’’ایک بہت بڑے سے پنجرے میں ہے،‘‘ میں نے کہا،’’وہ تو ضد کر رہی تھی کہ ہم آج ہی بہن فلک آرا کے پاس جائیں گے۔ ہم نے کہا، بھئی آج تو ہم تمھارے لیے پنجرا مول لیں گے۔ پھر فلک آرا پنجرے کو دھوئے گی،سجائے گی، اس میں تمھارے کھانے پینے کے برتن رکھے گی، تب ہم تم کو لے چلیں گے۔‘‘ 

فلک آرا کی خوشی دیکھنے والی تھی۔ فوراًمیری گود سے اتر کر اس نے پنجرے کو سینے سے لگا لگا کر چوما، اسی وقت اسے خوب اچھی طرح دھویا پونچھا، اس کے اندر کا منی کی پتیوں کا فرش کیا، پھر مٹی کا آب خورہ اور دانے کے لیے سکوری رکھی۔ مجھ سے مینا کی ایک ایک بات پوچھتی رہی، اس کی چونچ کیسی ہے،پر کس رنگ کے ہیں، کیا کیا باتیں کرتی ہے۔ رات کو اسے ٹھیک سے نیند نہیں آئی۔ بار بار جاگ کر مینا کی باتیں کرنے لگتی تھی۔ 

دوسرے دن گھر سے نکلا تو دور تک اس کی آواز سنائی دیتی رہی، ’’آج ہماری مینا آئے گی، آج ہماری مینا آئے گی۔‘‘ 

راستے بھر میں یہی سوچتا رہاکہ آج جب خالی ہاتھ گھر لوٹوں گا تو فلک آرا سے کیا بہانہ کروں گا۔ چمن میں میناؤں کو دانہ پانی دیتے ہوئے بھی طرح طرح کے بہانے سوچتا رہا۔ اس دن کام میں میرا دل نہیں لگ رہا تھا پھر بھی مغرب تک میں نے سارے کام نپٹا دیے اور ایک بار پھر پلٹ کر قفس کے اندر آگیا۔ مجھے خیال آیا کہ آج میں نے فلک مینا کی طرف دیکھا تک نہیں ہے ۔اس وقت وہ قفس کی پچھمی جالی کے ایک مچان پر بیٹھی ہوئی تھی اور چپ چاپ میری طرف دیکھ رہی تھی۔ میں اس کے قریب گیا تو اس نے گردن گھمالی اور دوسری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے اسے چمکارا۔اس نے دھیرے سے پر پھڑ پھڑائے اور پھر مجھے دیکھنے لگی۔ میں نے قفس میں چاروں طرف نظریں دوڑائیں۔ سب مینائیں اپنی اپنی جگہ ساکت بیٹھی تھیں۔ کل مجھے شاہی مینا کی چوری کے خیال سے جو ڈرلگا تھا وہ اچانک جاتا رہا، فلک آرا کو بہلا نے کے لیے جو بہانے سوچے تھے وہ بھی دماغ سے نکل گئے اور مینا کی چوری پھر ایک معمولی بات معلوم ہونے لگی۔ میں نے ادھر اُدھر دیکھا۔طاؤس چمن میں سناٹا تھا،مالی کام ختم کر کے جاچکے تھے۔ کوئی مجھے نہیں دیکھ رہا تھا۔ میں نے پھر فلک مینا کو چمکارا۔ اس نے پھر دھیرے سے پر پھڑ پھڑا کر میری طرف دیکھا اور میں نے ایک دم سے ہاتھ بڑھا کر اسے پکڑ لیا۔ اس نے خودکو چھڑانے کے لیے زور کیا لیکن جب میں چمکار چمکار کر اس کے پروں پر ہاتھ پھیرنے لگا تو آنکھیں موند لیں اور بدن ڈھیلا چھوڑ دیا۔ میں کچھ دیر دم سادھے کھڑا رہا،پھر اسے اپنے کرتے کی لمبی جیب میں ڈالا اور قفس سے باہر نکل آیا۔ 

لکّھی دروازے تک کئی جگہ پہرے کے سپاہی ملے لیکن انھیں معلوم تھا کہ میں طاؤس چمن میں شام تک باری کررہاہوں۔کسی نے مجھ سے کچھ نہیں پوچھا اور میں جیب میں ہاتھ ڈالے ڈالے قیصر باغ سے نکل کر گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔جی تو چاہتا تھا پوری رفتار سے دوڑنے لگوں لیکن کسی طرح اپنے قدموں کو تھامے ہوئے چلتا رہا۔ 

فلک آرا سو چکی تھی۔جمعراتی کی اماں میرا راستہ دیکھ رہی تھیں۔ انھیں کھانا دے کر رخصت کیا۔ مکان کا دروازہ اندر سے بند کر کے مینا کو جیب سے نکالا اور پنجرے کے پاس لے گیا۔ آج فلک آرانے پنجرے کو اور بھی سجا رکھا تھا۔تیلیوں کے بیچ بیچ میں چاندنی کے پھول اٹکائے تھے، جھاڑو کے تنکے میں رنگین کپڑے کی کترن باندھ کر اپنے خیال میں جھنڈا بنایا تھاجو پنجرے کے سہارے ٹیڑھا ٹیڑھا کھڑا تھا، پنجرے کے اندر آب خورے میں لبالب پانی بھرا ہوا تھا،سکوری میں روٹی کے ٹکڑے بھیگ رہے تھے اور پرانی روئی کی دو تین بتیاں سی بنا کر شاہی مینا کے لیے گائو تکیے تیار کیے گئے تھے۔ میں نے مینا کو آہستہ سے پنجرے میں پہنچایا اور پنجرا الگنی میں لٹکا دیا۔مینا کچھ دیر تک پنجرے میں ادھر سے ادھر چکر کاٹتی رہی، پھر آرام سے ایک جگہ ٹھہر گئی۔ 

صبح فلک آرا کے کھلکھلانے اور مینا کے چہچہانے کی آوازوں سے میری آنکھ کھلی۔فلک آرا نے معلوم نہیں کس وقت الگنی کے نیچے مونڈھا رکھ کرپنجرا اتار لیا تھااور اب اسی مونڈھے پر پنجرا رکھے، زمین پر گھٹنے ٹیکے بار بار پنجرے کو چومتی تھی اور مینا بار بار بول رہی تھی۔ مجھے دیکھتے ہی فلک آرا نے خبر سنائی، ’’ابا،ہماری مینا آگئی۔‘‘ 

دیر تک وہ مجھے بتاتی رہی کہ مینا کیا کہہ رہی ہے۔میں نے بھی پنجرے کے پاس بیٹھ کر مینا سے دو تین باتیں کیں، لیکن اس نے اس طرح میری طرف دیکھا گویا مجھے پہچانتی ہی نہیں۔اتنے میں فلک آرا نے پوچھا، ’’ابا،اس کا نام کیا ہے؟‘‘ 

’’فلک آرا۔‘‘میرے منھ سے نکلا،پھر میں رکا،اور بولا’’فلک آرا بیٹی، اس کا نام مینا ہے۔‘‘ 

’’واہ، مینا تو یہ خود ہے۔‘‘ 

’’اسی لیے تو اس کا نام مینا ہے۔‘‘ 

’’تو مینا تو سب کا نام ہوتا ہے۔‘‘ 

’’اسی لیے اس کا بھی نام مینا ہے۔‘‘ 

اس طرح میں اس کے چھوٹے سے دماغ کو الجھاتا رہا۔اصل میں خود میرا دماغ الجھا ہوا تھا۔ 

کئی دن تک میں ڈرتا ہوا طاؤس چمن پہنچتا اور ڈرا ہوا وہاں سے واپس آتا۔ ہروقت چوکنّا رہتا۔ قیصر باغ میں کوئی مجھے ذرا غور سے دیکھتا تو جی چاہتابھاگ کھڑا ہوں۔ گھر پر دیکھتا کہ فلک آرا مینا کا پنجرا سامنے رکھے اس سے دنیا جہان کی باتیں کررہی ہے۔ مجھے دیکھتے ہی وہ بتانا شروع کر دیتی کہ آج مینا نے اس سے کیا کیا باتیں کی ہیں۔ دھیرے دھیرے میری وحشت کم ہونے لگی، اور ایک دن،جب فلک آرا مینا کی باتیں بتارہی تھی، میں نے کہا، ’’مگر تمھاری میناہم سے تو بولتی نہیں۔‘‘ 

’’آپ بھی تو اس سے نہیں بولتے، وہ شکایت کررہی تھی۔‘‘ 

’’اچھا؟کیا کہہ رہی تھی بھلا؟‘‘ 

’’کہہ رہی تھی تمھارے ابا تم کو چاہتے ہیں،ہم کو نہیں چاہتے۔‘‘ 

’’مگر اس کی بہن تو اسے بہت چاہتی ہے۔‘‘ 

’’کون بہن؟‘‘ 

’’فلک آرا شہزادی!‘‘ 

اس پر وہ اس طرح ہنسی کہ میرا سارا ڈر ختم ہو گیا اور دوسرے دن میں بے دھڑک طاؤس چمن میں داخل ہوا۔ شام کے وقت میں نے کئی مرتبہ میناؤں کو گنا مگر صحیح صحیح نہیں گن سکا۔ صفائی کے بہانے سے قفس کے سارے آئینوں کو اتار لیا، پھر گنا، پھر بھی گنتی غلط ہوگئی۔ اس کے بعد میں روز کسی نہ کسی حیلے سے دو ایک مالیوں کو طاؤس چمن میں بلاتااور ان سے میناؤں کی گنتی کراتا۔ ان کی بتائی ہوئی تعدادیں ایسی ہوتیں کہ مجھے ہنسی آجاتی تھی۔ 

مالیوں سے میناؤں کو گنوانے میں مجھ کو اتنا ہی مزہ آنے لگا جتنا فلک آرا کو اپنی مینا سے باتیں کرنے میں آتا ہوگا، اور یہ میرا روز کا معمول ہو چلا تھا کہ ایک دن بادشاہ پھر طاؤس چمن میں تشریف لائے۔ 

ایجادی قفس کے پاس رک کروہ درباریوں اور داروغہ نبی بخش سے باتیں کرنے لگے۔ ڈرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی لیکن میرا دل دھڑدھڑ کر رہا تھا۔ بادشاہ نبی بخش کو رمنے کے ہاتھیوں کے بارے میں کچھ بتارہے تھے۔ بیچ بیچ میں وہ ایک نظر قفس پر بھی ڈال لیتے اور اس کی میناؤں کو ادھر سے ادھر اڑتے دیکھتے تھے۔ایک بار انھوں نے ذرا زیادہ دیر تک میناؤں کو دیکھا، پھر نبی بخش سے پوچھا، ’’ان کی تعلیم شروع کرادی؟‘‘ 

’’عالم پناہ،‘‘داروغہ ہاتھ جوڑ کر بولے،’’میر داؤد روز فجر کے وقت آکر سکھاتے ہیں۔‘‘ 

اب بادشاہ نے اپنے مصاحبوں سے قفس کی باتیں شروع کر دیں۔اس کے بنانے میں کاریگروں نے جو جو صنعتیں دکھائی تھیں ان کا ذکر ہوا۔ کچھ کاریگروں کے نام بھی لیے گئے جن میں بعض لکھنو کے مشہور سنار تھے۔میری گھبراہٹ اب دور ہو چکی تھی۔ میں سوچ رہا تھا ہمارے بادشاہ اپنے نوکروں سے بھی کیسے التفات کے ساتھ بات کرتے ہیں اور ان کی آواز کس قدر نرم ہے۔ اسی وقت مجھے بادشاہ کی نرم آواز سنائی دی، ’’بھئی نبی بخش،آج فلک آرا نہیں دکھائی دے رہی ہیں۔‘‘ 

ایک دم سے جیسے کسی نے میرے بدن سے سارا خون کھینچ لیا۔ داروغہ نے کہا، ’’جہاں پناہ،کہیں ٹہنیوں میں چھپ گئی ہیں۔ ابھی تو سارے میں اڑتی پھر رہی تھیں۔‘‘ 

بادشاہ دھیرے سے ہنسے اور بولے، ’’ہم سے شرما تو نہیں رہی ہیں؟اور انھیں دیکھو، حیادار دلہن کو، کیسی چہلیں کر رہی ہیں۔بھئی حیادار دلہن، یہی تمہارے لچھن رہے تو تمہارا نام بدل کر شوخ ادا رکھ دیں گے۔‘‘ 

سب لوگوں نے سر جھکا کر منھ پر رومال رکھ لیے اور بے آواز ہنسنے لگے۔ کوئی اور وقت ہوتا تو میں بھی بادشاہ کو اس طرح مزے مزے کی باتیں کرتے دیکھ کر نہال ہو جاتا اور اپنے تمام جاننے والوں کے سامنے ان کا ایک ایک لفظ دہراتا، لیکن اس وقت تو میرے کانوں میں ایک ہی آواز گونج رہی تھی: ’’بھئی نبی بخش، آج فلک آرا نہیں دکھائی دے رہی ہیں۔‘‘ 

بادشاہ اب پھر ہاتھیوں کی باتیں کررہے تھے اور میںقفس سے کچھ ہٹ کر کھڑا ہوا تھا۔ بادشاہ کی بات سن کر پہلے تومجھے ایسا محسوس ہوا تھا کہ میں اچانک سکڑکر بالشت بھر کا رہ گیا ہوں، لیکن اب یہ معلوم ہورہاتھا کہ میرا بدن پھیل کر اتنا بڑا ہوا جارہا ہے کہ میں کسی کی بھی نظروں سے خود کو چھپا نہیں پائوں گا۔ میں مٹھیاں بھینچ بھینچ کر سکڑنے کی کوشش کررہا تھا۔ اس کشمکش میں مجھے پتا بھی نہیں چلا کہ بادشاہ کب واپس گئے۔ جب میں چونکا تو طاؤس چمن میں سناٹا تھا، صرف قفس کے اندر اڑتی میناؤں کے پروں کی آواز آرہی تھی۔ 

میرا بس نہیں تھا کہ ابھی اڑ کر گھر پہنچ جائوں اور شاہی مینا کو لا کر قفس میں ڈال دوں۔ مغرب کے وقت تک کسی طرح کام ختم کر کے گھر واپس ہوا۔ راستے بھر تو اسی فکر میں رہا کہ مینا کو کسی طرح قفس میں پہنچادوں۔ لیکن جب گھر پہنچا اور فلک آرا نے روز کی طرح چہک چہک کر مینا کا دن بھر کا حال سنانا شروع کیا تو مجھے یہ فکر بھی لگ گئی کہ مینا کو تو لے جائوں مگر فلک آرا سے کیا کہوں گا۔ اس رات بہت دیر تک جاگتا اور کروٹیں بدلتا رہا۔ 

دن چڑھے سو کر اٹھا تو خیال آیا کہ کل سے طاؤس چمن میں میری باری صبح کی ہو جائے گی۔ پھر ایک ہفتے تک میناکو قفس میں پہنچانا آسان نہ ہوگا، جوکچھ کرنا ہے آج ہی کرنا ہے۔فلک آرا اس وقت بھی مینا سے کھیل رہی تھی۔ دونوں میں جدائی ڈال دینے کا خیال مجھے تکلیف دے رہا تھا لیکن اسی وقت ایک تدبیر میرے دماغ میں آگئی۔ میں نے پنجرے کے پاس بیٹھ کر مینا کو غور سے دیکھا، اور فلک آرا سے کہا، ’’بیٹی،یہ تمہاری مینا کی آنکھیں کیسی ہورہی ہیں؟‘‘ 

’’ٹھیک تو ہیں،‘‘فلک آرا نے مینا کی آنکھیں دیکھتے ہوئے کہا۔ 

’’کہیں بھی نہیں ٹھیک ہیں۔کیسی میلی میلی تو ہو رہی ہیں، اور دیکھو کنارے کنارے زردی بھی ہے۔ افوہ اسے بھی یرقان ہوگیا ہے۔‘‘ 

’’اَرقان کیا؟‘‘فلک آرا نے گھبرا کر پوچھا۔ 

’’بہت بری بیماری ہوتی ہے۔ بادشاہ کے باغ کی کتنی مینائیں اس میں مر چکی ہیں۔‘‘ 

فلک آرا اور بھی گھبرا گئی، بولی، ’’تو حکیم صاحب سے دوا لے آئو۔‘‘ 

’’حکیم صاحب چڑیوں کی دوائیں تھوڑی دیتے ہیں،‘‘میں نے کہا،’’اسے تو نصیرالدین حیدر بادشاہ کے انگریزی اسپتال میں بھرتی کرانا ہوگا۔ شاید بچ ہی جائے۔ اس کی حالت تو بہت خراب ہے، پھر بھی شاید۔۔۔ دیکھو کہیں راستے ہی میں نہ مر جائے۔‘‘ 

غرض میں نے بھولی بھالی بچی کو اتنا دہلایا کہ وہ رو کر کہنے لگی، ’’اللہ ابا اسے جلدی لے کر جائو۔‘‘ 

’’ابھی تو اسپتال بند ہوگا،‘‘میں نے اسے بتایا،’’جب کام پر جائیں گے تو اسے لیتے جائیں گے۔‘‘ 

جانے کا وقت آیا تو میں نے مینا کو پنجرے سے نکالا۔فلک آرا بولی، ’’ابا،پنجرے ہی میں لے جائو۔‘‘ 

’’وہاں چڑیاں پنجروں میں نہیںرکھی جاتیں۔ ان کے لیے پورا مکان بنا ہوا ہے ۔تم پنجرا صاف کرکے رکھو۔ جب یہ اسپتال سے اچھی ہو کر آئے گی تو مزے سے اپنے پنجرے میں رہے گی۔‘‘ 

فلک آرا نے مینا کو میرے ہاتھ سے لے لیا۔دیر تک اسے پیار کرتی رہی، پھر بولی، ’’ابا،اس پر کوئی دعا پھونک دو۔‘‘ 

’’راستے میں پھونک دیں گے،‘‘میں نے کہا،’’لائو دیر ہو رہی ہے۔ اسپتال بند ہو جائے گا۔‘‘ 

مینا کو اس کے ہاتھ سے لے کر میں نے کُرتے کی جیب میں ڈال لیا اور جلدی سے دروازے کے باہر نکل آیا۔جانتا تھا کہ فلک آرا ہر روز کی طرح دروازے کا ایک پٹ پکڑے کھڑی ہوئی مجھے جاتے دیکھ رہی ہے،لیکن میں نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ 

قسمت نے ساتھ دیا اور طاؤس چمن میں داخل ہوتے ہی موقع مل گیا۔ مالیوں میں سے کوئی میری طرف متوجہ نہیں تھا۔ میں قفس کے اندر آگیا۔ مالی اپنے اپنے کام میں لگے ہوئے تھے۔ میں نے ایک بار زور سے کھانس کر گلا صاف کیا۔ پھر بھی کسی نے میری طرف نہیں دیکھا۔ اب قفس کے ایک کنارے پرجاکر میں نے فلک مینا کو جیب سے نکالا اور ہلکے سے اچھال دیا۔ اس نے پر پھٹ پھٹا کر خود کو ہوا میں ٹکایا، پھر ایک جھولے پر بیٹھ گئی،وہاں سے اڑی،ایک مچان پر پہنچی، مچان سے نیچے غوطہ مارا اور حوض کے کنارے آبیٹھی۔ جہاں بھی وہ بیٹھتی دوسری کئی مینائیں اس کے پاس آبیٹھتیں اور اس طرح چہچہاتیں جیسے پوچھ رہی ہوں،بہن اتنے دن کہاں رہیں؟ 

جس دن طاؤس چمن میں مینائیں آئی ہیں اس کے بعد سے آج پہلا دن تھاکہ میرے دل پر کوئی بوجھ نہیں تھا۔ ننھی فلک آرا کو بہلانے کے لیے بہت سی باتیں میں نے راستے ہی میں سوچ لی تھیں اور مجھے یقین تھا کہ کئی دن وہ اسی میں خوش رہے گی کہ اس کی مینا اسپتال میں اچھی ہورہی ہے، پھر اسے بھول بھال جائے گی۔آج میں نے قفس کی ساری میناؤں کو غور سے دیکھا اور مجھے بھی ان میں کچھ کچھ فرق نظر آیا،اور فلک مینا کو تو میں ہزاروں میناؤں میں پہچان سکتا تھا۔ اس وقت وہ سب سے الگ تھلگ ایک ٹہنی پر بیٹھی تھی اور ٹہنی دھیرے دھیرے نیچے اوپر ہورہی تھی۔میں نے قریب جاکر اس کو چمکارا۔وہ چپ چاپ میری طرف دیکھنے لگی۔ 

’’فلک آرا یاد آرہی ہے؟‘‘میں نے اس سے پوچھا۔ 

وہ اسی طرح میری طرف دیکھتی رہی۔ میں نے کہا، ’’ہم سے ناراض تو نہیں ہو؟‘‘ 

اچانک مجھے خیال آیا کہ میں بالکل بادشاہ کی طرح بول رہا ہوں۔ میں آپ ہی آپ ڈرگیا اور جلدی جلدی قفس کا کام ختم کرکے باہرنکل آیا۔ 

(۴) 

گھر آکر، جیسا کہ میرا خیال تھا، مجھے فلک آرا کو بہلانے میں کوئی مشکل نہیں ہوئی۔ میں نے خوب مزے لے لے کر اسے بتایا کہ کس طرح اس کی مینا نے کڑوی دواپینے سے انکار کر دیا اور اس کے لیے میٹھی میٹھی دوا بنوائی گئی۔ 

’’اور بھیا جب اسے مونگ کی کھچڑی کھانے کو دی گئی،‘‘میں نے بتایا،’’تو اس نے کہا ہم مونگ کی کھچڑی نہیں کھاتے، تو ڈاکٹر نے پوچھاپھر کیا کھاتی ہو۔‘‘ 

’’اس نے کہا ہوگا ہم تو دودھ جلیبی کھاتے ہیں،‘‘فلک آرا بیچ میں بول پڑی۔ 

’’ہاں،‘‘میں نے کہا،’’ڈاکٹر کی سمجھ میں نہیں آیا،بے چارہ انگریز تھا نا؟ ہم سے پوچھنے لگاوِل مسٹر کالے خاں، یہ جلیبی کیا ہوتا ہے۔‘‘ 

فلک آرا ہنسی سے لوٹ گئی۔ اس نے خالی پنجرے کو اٹھا کر سینے سے لگالیااور ’’جلیبی کیا ہوتا ہے‘‘ کہہ کہہ کر دیر تک ہنستی رہی۔ رات گئے تک میں نے اسے اسپتال اور اس کی مینا کے قصے سنائے۔ 

جب وہ سو گئی تو میں نے اٹھ کر پنجرے کو اس کی سجاوٹوں سمیت کوٹھری کے کباڑ میں چھپا دیا۔ میں چاہتا تھا فلک آرا اپنی مینا کو بالکل بھول جائے۔ 

صبح وہ سو کر اٹھی توچپ چپ تھی۔ دیر کے بعد اس نے مجھ سے صرف اتنا پوچھا، ’’ابا، ہماری مینا اچھی ہو جائے گی؟‘‘ 

’’ہاں،اچھی ہو جائے گی،‘‘میں نے جواب دیا۔ 

’’لیکن بیٹی، بیمار کی زیادہ باتیں نہیں کرتے ہیں، اس سے بیماری بڑھ جاتی ہے۔‘‘ 

اس کے بعد اس نے مجھ سے یہ بھی نہیں پوچھا کہ اس کی مینا کا پنجرا کیا ہوا۔ 

میں اسے بہلانے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا کہ کسی نے دروازہ کھٹکھٹایا۔میں باہر نکلا۔ داروغہ نبی بخش کا آدمی کھڑا تھا۔ 

’’خیریت تو ہے،محرّم علی؟‘‘میں نے پوچھا۔ 

’’داروغہ صاحب نے آج سویرے سے بلایا ہے،‘‘اس نے کہا۔ ’’حضرت سلطانِ عالم طاؤس چمن میں تشریف لا رہے ہیں۔‘‘ 

’’آج؟‘‘میں نے حیران ہو کر پوچھا،’’ابھی پرسوں ہی تو۔۔۔‘‘ 

’’چڑیاں پڑھ گئی ہیں نا؟‘‘محرّم علی بولا،’’وہی سننے۔۔۔‘‘ 

’’اچھا تم چلو۔‘‘ 

میں نے جلدی جلدی کپڑے بدلے۔باہر نکل کر جمعراتی کی ماں سے فلک آرا کے پاس جانے کو کہا اور لپکتا ہوا طاؤس چمن پہنچ گیا۔ راستے میں کئی بار میں نے فلک مینا کو قفس میں پہنچا دینے پر خود کو شاباشی بھی دی۔ 

آج ایجادی قفس کے سامنے چاندی کی منقش چوبوں پر سبزاطلس کا مقیشی جھالروں والاچھوٹا شامیانہ تنا ہوا تھا۔ داروغہ اور بہت سے ملازم قفس کے پاس جمع تھے۔ ان کے بیچ میں بوڑھے میر داؤد اس طرح اینٹھے ہوئے کھڑے تھے جیسے وہ بادشاہ ہوں اور ہم سب ان کے غلام۔میر داؤد کی نازک مزاجیوں اور اکڑ کے قصے لکھنو بھر میں مشہور تھے،لیکن سب مانتے تھے کہ پرندوں کو پڑھانے میں ان کا جواب نہیں ہے۔ 

’’ہاں میاں کالے خاں،‘‘داروغہ نے مجھے دیکھتے ہی کہا،’’قفس کو دیکھ بھال لو،ذرا جلدی۔۔۔‘‘ 

میں نے بڑی پھرتی کے ساتھ قفس کا فرش صاف کیا۔پودوں پر پانی چھڑکا،گرے پڑے پھول پتے سمیٹے اور باہر نکلاہی تھا کہ جلو خانے کی طرف شہنائیاں اور نقارے بجنے لگے۔ ہم سب ہوشیار ہوکر کھڑے ہو گئے۔مجھے میر داؤد کی آواز سنائی دی، ’’پھر کہتا ہوں، سبق کے بیچ میں کوئی نہ بولے،نہیں جانور ہشک جائیں گے۔‘‘داروغہ کو کچھ غصہ آگیا۔بولے، ’’میر صاحب، ایک بار کہہ دیا، حضرت کے سامنے کسی کی مجال ہے جوچوں بھی کر جائے، مگر آپ ہیں کہ جب سے یہی رٹ لگائے ہیں۔‘‘ 

جواب میں میر صاحب نے بڑے اطمینان کے ساتھ داروغہ کے سینے پر انگلی رکھ کر پھر وہی کہا، ’’سبق کے بیچ میں کوئی نہ بولے،نہیں جانور ہشک جائیں گے۔‘‘ 

’’اماں جائو میر صاحب، داروغہ منھ بنا کر بولے،‘‘کیا مٹھوؤں کی سی بات کر رہے ہو۔‘‘ 

میر صاحب تلملاکر کچھ کہنے چلے تھے کہ شاہی جلوس دور پر نظر آنے لگا۔ ہم سب طاؤس چمن کے پھاٹک پر دو قطاریں بنا کر کھڑے ہو گئے۔ کچھ دیر میں جلوس پھاٹک پر آپہنچا۔آج بادشاہ کے ساتھ حضور عالم اور مصاحبوں کے علاوہ بیلی گاردکے کئی انگریز افسر بھی تھے۔ حضور عالم انھیں قفس کی ایک ایک چیز دکھانے لگے۔ پھر بادشاہ نے ان سے دھیرے دھیرے کچھ کہا اور میر داؤد کو آنکھ سے اشارہ کیا۔ میر صاحب تسلیم بجالائے اور بڑھ کر قفس کے قریب آگئے۔ انھوں نے منھ سے کچھ سیٹی سی بجائی۔ قفس میں اڑتی ہوئی مینائیں ان کی طرف آکر جھولوں اور اڈّوں پر بیٹھ گئیں اور زور زور سے چہچہانے لگیں۔ میرصاحب نے کلے پھلائے، پچکائے اور ایک عجیب سی آواز منھ سے نکالی۔ مینائیں ذرادیر کو چپ ہوئیں، پھر سب کے گلے پھول گئے اور ان کی آوازیں ایک آواز ہوکر سنائی دیں، 

سلامت، شاہ اختر، جانِ عالم 

سلیمانِ زماں، سلطانِ عالم 

ایک ایک لفظ اتنا سچاّنکل رہا تھا کہ مجھ کو حیرت ہوگئی۔ بالکل ایسا معلوم ہورہا تھا کہ بہت سی گانے والیاں ایک ساتھ مل کر مبارکبادی گارہی ہیں۔ میناؤں نے دو بار یہی شعر پڑھا، دم بھر کو رکیں،پھر بھاری آواز اور مردانے لہجے میں بولیں، ’’وِل کم ٹو طاؤس چمن!‘‘ 

اس پر انگریز افسروں کو اتنا مزہ آیا کہ وہ بار بار مٹھیاں باندھ کر ہاتھ اوپر اچھالنے لگے۔ میناؤں نے پھر پہلاشعر پڑھا، پھر ایک اور شعر، پھر ایک اور۔بادشاہ کچھ کچھ دیربعد مسکرا کر میر داؤد کی طرف دیکھتے، اور میر صاحب عجب تماشا سادکھا رہے تھے۔ سینہ پھلا کر تن جاتے اور فوراً ہی اس قدر جھک کر تسلیم کرتے کہ معلوم ہوتا قلابازی کھاجائیں گے۔ 

میناؤں نے ایک نیا شعر پڑھا اورپھر پہلا شعر پڑھنا شروع کیا، 

’’سلامت،شاہ اختر،جان عالم۔۔۔‘‘ 

لیکن ابھی شعر پورا نہیں ہواتھا کہ قفس کے پوربی حصّے سے ایک تیزبچکانی آواز آئی، 

’’فلک آرا شہزادی ہے؟‘‘ 

سب مینائیں ایک دم سے چپ ہوگئیں اور میر داؤد کا منھ کھلا کا کھلا رہ گیا۔فلک مینا ایک ٹہنی پر اکیلی بیٹھی تھی اور اس کا گلا پھولاہواتھا۔ اس نے پھر کہا، 

’’فلک آرا شہزادی ہے۔ دودھ جلیبی کھاتی ہے۔‘‘ 

بالکل میری ننھی فلک آرا کی آواز تھی۔ میری آنکھوں کے آگے اندھیرا سا چھانے لگا۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ دوسروں پران بولوں کا کیا اثر ہوا لیکن میں یہ سوچ کر تھراگیا کہ محل کی گھوڑیاں بھی دودھ جلیبی کو زیادہ منھ نہیں لگاتیں اور یہ ظالم مینا شہزادی کو دودھ جلیبی کھلائے دے رہی ہے، وہ بھی بادشاہ کے سامنے۔مجھے کچھ لوگوں کے دھیرے دھیرے بولنے کی آوازیں سنائی دیں لیکن سمجھ میں نہیں آیا کہ کون کیاکہہ رہا ہے اس لیے کہ میرے کانوں میں سیٹیاں بج رہی تھیں۔ اور اب مجھے ان سیٹیوں سے بھی زیادہ تیز سیٹی کی آواز سنائی دی۔ 

’’فلک آرا شہزادی ہے۔دودھ جلیبی کھاتی ہے۔کالے خاں کی گوری گوری بیٹی ہے۔‘‘پھر فلک آرا کے کھلکھلا کر ہنسنے اور تالیاں بجانے کی آواز، اور پھر وہی، 

’’کالے خاں کی گوری گوری بیٹی ہے۔کالے خاں کی گوری گوری بیٹی ہے۔‘‘ 

اپنی آنکھوں کے آگے چھائے ہوئے اندھیرے میں بھی میں نے دیکھا کہ داروغہ نبی بخش آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر میری طرف دیکھ رہے ہیں۔پھر میں نے دیکھا کہ بادشاہ نے داروغہ کو دیکھا، پھر آہستہ آہستہ گردن گھمائی اور ان کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ 

میرا بدن زور سے تھر تھرایا اور دانت بیٹھ گئے۔ مجھے ایسا معلوم ہوا کہ قفس کا سفید پتھریلا چبوترا اوپر اچھلااور میرے سر سے ٹکراگیا۔ 

دوسرے دن ہوش آیا تو میں نصیرالدین حیدر کے انگریزی اسپتال میں لیٹا ہوا تھا اور داروغہ نبی بخش جھک کر مجھے دیکھ رہے تھے۔ داروغہ پر نظر پڑتے ہی مجھ کو سب کچھ یاد آگیا اور میں اٹھ کر بیٹھنے لگا لیکن داروغہ نے میرے سینے پر ہاتھ رکھ دیا۔ 

’’لیٹے رہو،لیٹے رہو،‘‘انھوں نے کہا،’’اب سر کی چوٹ کیسی ہے؟‘‘ 

’’چوٹ؟‘‘میں نے پوچھا اور سر پر ہاتھ پھیرا تو معلوم ہوا کئی پٹیاں بندھی ہوئی ہیں،کچھ تکلیف بھی ہورہی تھی۔ لیکن اس وقت مجھے تکلیف کی پروا نہیں تھی۔میں نے داروغہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا، ’’داروغہ صاحب ،آپ کو قسم ہے سچ سچ بتائیے،وہاں کیا ہوا تھا؟‘‘ 

’’سب معلوم ہوجائے گا،بھائی، سب معلوم ہو جائے گا۔پہلے اچھے تو ہو جائو۔‘‘ 

’’میں بالکل اچھا ہوں، داروغہ صاحب،‘‘میں نے کہا،’’آپ کو قسم ہے۔‘‘ 

داروغہ کچھ دیر ٹالتے رہے، آخر مجبورہو گئے۔ 

’’کیا پوچھتے ہو میاں کالے خاں،‘‘انھوں نے کہنا شروع کیا، تم تو غش کھا کے آرام پاگئے،وہاں ہم لوگوں پر جو گزرگئی۔۔۔ مگر پہلے یہ بتائو،تم اس کو کس وقت پڑھادیتے تھے؟‘‘ 

’’کس کو؟‘‘ 

’’فلک آرا مینا کو، اور کس کو۔‘‘ 

’’میں نے اسے کچھ نہیں پڑھایا، داروغہ صاحب،قسم سے۔‘‘ 

’’پھر؟‘‘انھوں نے پوچھا،’’پھر یہ بیہودہ کلام اس نے کہاں سن لیے؟‘‘ 

میں کچھ دیر ہچکچاتا رہا، آخر بولا، ’’میرے گھرپر۔‘‘ 

داروغہ ہکا بکا رہ گئے۔ 

’’کیا کہہ رہے ہو!‘‘ 

تب میں نے انھیں اول سے آخر تک پورا قصہ سنا دیا۔ داروغہ سناٹے میں آگئے۔دیر تک منھ سے آواز نہیں نکل سکی۔ آخر بولے، ’’غضب کر دیا تم نے، کالے خاں۔ بادشاہی پرندے کی چوری! اچھا اس دن جو حضرت نے فرمایا تھا کہ فلک آرا دکھائی نہیں دے رہی ہے، تو کیا اس دن بھی وہ تمہارے گھر تھی؟‘‘ 

میں نے سر جھکا لیا۔ 

’’تم نے مجھے مارڈالا،‘‘داروغہ نے کہا ، ’’مجھے کچھ پتا نہیں،میں نے کہہ دیا ابھی تو یہیں اڑتی پھررہی تھی۔ واہ بھائی، تم تو ہماری بھی نوکری لے گئے تھے۔ اب کل جو اس نے صاحبوں کے سامنے آؤ باؤ بکنا شروع کیا تو حضرت پر سب کچھ روشن ہوگیا۔ اُف اُف، اس کی کل کی لن ترانیاں سن کر حضرت نے جو بات کہی… وہی میں کہوں کہ یہ کیا زبان مبارک سے ارشاد ہورہا ہے۔ ‘‘ 

’’کیا ؟ ‘‘میں اٹھ کر بیٹھ گیا، ’’حضرت نے کیا فرمایا؟‘‘ 

’’فرمایا تو بس اتنا کہ داروغہ صاحب، ہمارے جانوروں کو باہر نہ بھیجا کیجیے۔‘‘داروغہ نے بتایا اور ٹھڈی سانس بھری،’’داروغہ صاحب!آج تک حضرت نے نبی بخش کے سوا داروغہ نہیں کہا تھا، نہ کہ داروغہ صاحب۔ اتنے دن کی نمک خواری کے بعد تمہارے سبب یہ بھی سننا پڑا۔ ابھی تک کان کڑوے ہورہے ہیں۔‘‘ 

’’داروغہ صاحب، ‘‘میں نے لجاجت کے ساتھ کہا، ’’اب تو قصور ہوا ،جو سزا چاہیے۔۔۔‘‘ 

’’اچھا خیر‘‘انھوں نے ہاتھ اٹھا کر مجھے چپ کرادیا،’’تو حضرت تو رزیڈنٹی کے صاحبوں کو لیے ہوئے سدھار گئے، یہاں طاؤس چمن میں غدر مچ گیا۔ حضور عالم ایک ایک کو پھاڑے کھاتے ہیں۔ ادھر میر داؤد صاحب گزوں اچھل رہے ہیں کہ دشمنوں نے ان کی میناؤں کو ہشکانے کے لیے باہر کا جانور لاکے قفس میں چھوڑدیا۔ میں کہہ رہا ہوں یہ باہر کا جانور نہیں، حضرت کی پہچانی ہوئی مینا ہے۔ حضور عالم سامنے کھڑے ہیں، میر صاحب نے ان کا بھی لحاظ نہیں کیا۔ لگے چلانے کہ میں نے اسے نہیں پڑھایا ہے، میں نے اسے نہیں پڑھایا ہے۔ اوپر سے حضور عالم نے اور یہ کہہ کے ان کے مرچیں لگادیں کہ میر صاحب، وہ تو ظاہر ہے کہ تم نے اسے نہیں پڑھایا ہے، کس واسطے کہ یہ تمہاری میناؤں سے اچھا بولتی ہے۔اب تو میر صاحب… کیا بتاؤں، قفس سے سر تو وہیں ٹکرا دیا، پیادوں کے ہاتھ گھر کو روانہ کیے گئے تو گومتی میں پھاندے پڑتے تھے۔جو کنواں راستے میں آیا… درشن سنگھ کی باولی میں تو سمجھو کود ہی گئے تھے۔‘‘ 

مجھے میر صاحب کی کود پھاند سے کیا لینا دینا تھا۔ میں نے کہا، ’’داروغہ صاحب،یہ بتائیے،وہاں میرا کیا ہوا؟‘‘ 

’’ہونا کیا تھا۔‘‘وہ بولے۔ ’’جہاں پناہ یہ مقدمہ حضور عالم کو سونپ کر سدھارے۔ سب پر کھلا ہوا تھا کہ یہ کچھ تمھاری ہی کارستانی ہے۔ اس علامہ چڑیا نے کوئی کسر چھوڑی تھی؟حضور عالم نے تو وہیں کھڑے کھڑے تمہارا فیصلہ کردیا تھا۔ میں نے ٹوپی اتارکے ان کے پیروں میں ڈال دی۔ خیر، وہ کسی طرح ٹھنڈے پڑے، ضمانت منظور کی، گرفتاری کا حکم واپس لیا۔ اب مقدمہ بنواکے اظہار لیں گے۔ دیکھو کیا فیصلہ کرتے ہیں، جرمانہ تو ہوا ہی سمجھو، اوپر سے۔۔۔‘‘ 

’’داروغہ صاحب، ‘‘میں گھبرا کر بولا، ’’یہاں پھونٹی کوڑی نہیں ہے۔ جرمانہ کہاں سے بھروں گا؟‘‘ 

’’ارے بھائی، کیوں پریشان ہوتے ہو، ‘‘داروغہ نے کہا، ’’آخر ہم کس دن کے لیے ہیں؟ لیکن بات جرمانے ہی پر ٹل جائے تب نا؟ حضور عالم کھسیائے ہوئے ہیں،صاحبوں کے آگے کرکری ہوئی ہے۔ کیا پتا بند بھی کرا دیں، یا گنگا پار اتروادیں۔‘‘قید خانے سے زیادہ مجھے گنگا پار ہونے کے خیال سے وحشت ہوئی۔ ساری عمر لکھنو میں گزری تھی، باہر کہیں جاتا تو پاگل ہوجاتا، میں نے کہا، ’’داروغہ صاحب، اس سے تو اچھا ہے کہ حضور عالم مجھے توپ دم کرادیں۔خدا کے واسطے کوئی ترکیب نکالیے۔‘‘ پھر مجھے ایک خیال آیا۔’’کیوں داروغہ صاحب، بادشاہ کو عرضی لکھوں؟ شاید معافی مل جائے۔‘‘ 

’’عرضیاں بادشاہ کو پہنچتی کہاں ہیں، میرے بھائی،‘‘داروغہ ٹھنڈی سانس لے کر بولے، ’’ایکوں ایک کاغذ پہلے حضور عالم کے ملاحظے سے گزرتا ہے۔ اب وہ جس پر چاہیں آپ حکم صادر کریں، جسے چاہیں حضرت کی خدمت میں پیش کریں۔‘‘داروغہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ چلتے چلتے ذرا رُکے اور بولے، ’’مگر یہ ضرور ہے کالے خاں، عرضی کی تمھیں سوجھی اچھی ہے۔‘‘ 

’’داروغہ صاحب ، لیکن مجھے خدارا یہاں سے نکلوائیے، ‘‘ میں نے کہا، ’’نہیں دواؤں کے یہ بھپکے مارڈالیں گے۔‘‘ 

’’سچ کہتے ہو۔ اچھا تو چھٹی میں ابھی دلائے دیتا ہوں۔تم گھر جاکر ایک دن دو دن آرام کرلو۔ پھر کسی اچھے منشی سے عرضی لکھوانا۔آپ نہ لکھنے بیٹھ جائیے گا۔‘‘ 

’’میں داروغہ صاحب، جاہل آدمی، آپ لکھ کر بنتا کام بگاڑوں گا؟‘‘ 

’’اور ہم کہہ کیا رہے ہیں۔‘‘ 

داروغہ صاحب اسپتال والوں سے بات کرکے ادھر کے ادھر نکل گئے اور میں کچھ دیر بعد چھٹی پاکے گھر آگیا۔ 

ننھی فلک آرا کو گود میں بٹھا کر میں دیر تک بہلاتارہا، لیکن مجھے خبر کچھ نہیں تھی کہ میںکیا کہہ رہا ہوں اور وہ کیا کہہ رہی ہے۔ 

(۵) 

دوسرے ہی دن میں منشیوں کی فکر میں نکل کھڑا ہوا۔ اس وقت لکھنو میں ایک سے ایک لکھنے والے مل جاتے تھے۔ منشی کالکا پرشاد تو میرے ہی محلے میں تھے۔ تین کو میں جانتا تھا کہ بادشاہ کی خدمت میں رسائی رکھتے ہیں، ایک مرزا رجب علی صاحب، ایک منشی ظہیرالدین صاحب، ایک منشی امیر احمد صاحب۔ مرزا صاحب بڑی چیز تھے، ایک عالم میں ان کے قلم کی دھوم تھی، ان سے کہنے کی تو میری ہمت نہ ہوئی، منشی ظہیرالدین کو پوچھتا پاچھتا ان کے گھر پہنچا تو معلوم ہوا بلگرام گئے ہوئے ہیں۔ اب منشی امیر احمد صاحب رہ گئے۔ ان کا گھر بتانے والا کوئی نہ ملا لیکن یہ معلوم ہوا کہ وہ جمعرات کے جمعرات شاہ مینا صاحب کے مزار پر حاضری دیتے ہیں۔ اتفاق کی بات، اس دن جمعرات ہی تھی، وہ بھی نوچندی جمعرات۔ مغرب کے وقت مچھی بھون کے پہلو سے ہوتا ہوا میں شاہ مینا صاحب پہنچ گیا۔ آدمیوں کی ریل پیل تھی، کسی طرح مزار تک پہنچا۔ وہاں قوالی ہورہی تھی۔ منشی صاحب ہی کا کلام گایا جارہا تھا۔ وہ خود بھی وہیں تشریف رکھتے تھے۔ میں انھیں قیصر باغ میں کئی بار دیکھ چکا تھا۔ ایک کونے میں کھڑا ہوکر قوالی سننے لگا۔ رات گئے محفل برخاست ہوئی تو منشی صاحب کو لوگوں نے گھیر لیا۔ اب باتیں ہورہی ہیں۔ خدا خدا کرکے منشی صاحب اٹھے، باہر نکلے۔ میں پیچھے پیچھے ہولیا۔ اب منشی صاحب تسبیح گھماتے ہوئے ایک گلی سے دوسری، دوسری سے تیسری میں مڑتے جارہے ہیں اور میں سائے کی طرح ساتھ ساتھ۔ آخر وہ ٹھٹھک کر رک گئے۔ میں نے سامنے آکر سلام کیا۔ انھوں نے جواب دے کر مجھے غور سے دیکھا۔ 

’’آپ کے کرم کا محتاج ہوں،‘‘میں نے کہا۔ 

منشی صاحب جیب میں ہاتھ ڈالنے لگے۔ میں نے ہاتھ جوڑلیے۔ 

’’حضور، فقیر نہیں ہوں۔‘‘ 

’’اچھا تو پھر؟‘‘ 

’’فقیروں سے بھی بدتر ہوں۔ آپ چاہیں تو خانہ خرابی سے بچ جاؤں۔‘‘ 

’’ارے بندۂ خدا کیوں پہیلیاں بجھوارہے ہو؟کچھ کھل کر نہیں کہو گے؟‘‘ 

میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنا قصہ شروع کردیا مگر منشی صاحب نے تھوڑی ہی دیر میں مجھے روک دیا۔ ان کا مکان قریب آگیا تھا، وہاں لے گئے۔ میں نے کتنا کتنا کہا کہ رات بہت آگئی ہے، میں کل حاضر ہوجاؤں گا، مگر انھوں نے اسی وقت سارا حال سنا، بیچ بیچ میں کبھی افسوس کرتے، کبھی حیرت، کبھی ہنس پڑتے، کبھی بادشاہ کی تعریف کرنے لگتے۔ میں نے پورا قصہ سنا کر اپنا مطلب عرض کیا تو وہ کچھ سوچ میں پڑگئے، پھر بولے، ’’سنو بھائی کالے خاں، تمھارا قصہ ہمارے دل کو لگ گیا۔ عرضی تو تمھاری ہم لکھ دیں گے، اور جی لگا کے لکھیں گے، لیکن وہ حضرت تک پہنچے تو کیوں کر پہنچے؟ یہ تمھارے بس کا کام نہیں، کوئی وسیلہ ہے تمھارے پاس؟‘‘ 

’’وسیلہ؟ ‘‘میں نے کہا، ’’منشی صاحب، میرا تو جو کچھ وسیلہ ہیں آپ ہی ہیں۔آپ حضرت سلطان عالم کی خدمت میں۔۔۔‘‘ 

’’ہاں بھائی، گاہے گاہے حاضری تو دیتا ہوں۔ غریب پروری ہے حضرت کی کہ یاد فرمالیتے ہیں۔‘‘ 

’’تو پھر منشی صاحب، ‘‘میں نے کچھ خوش ہوکر کچھ ڈرتے ڈرتے کہا۔’’اگر وہ عرضی آپ ہی۔۔۔‘‘ 

منشی صاحب ہنسنے لگے۔ 

’’بھئی کالے خاں۔۔۔ مگر سچ ہے، تم بادشاہی کا رخانے کو کیا جانو۔ وہاں یہ تھوڑی ہوتا ہے کہ حضرت ظلّ سبحانی، آداب، یہ چٹھی لے لیجیے، اور حضرت نے ہاتھ بڑھا کر۔۔۔‘‘ 

میں جھینپ گیا، بولا، ’’منشی صاحب، یہ میرا مطلب نہیں تھا۔ اصل یہ ہے کہ سلطان عالم کو عرضی پہنچوانے کے لیے میں آپ کے سوا اور کسی سے نہیں کہہ سکتا۔‘‘ 

’’عرضی بادشاہ تک پہنچی بھی تو ہزار ہاتھوں سے ہوتی ہوئی پہنچے گی۔ پھر مقدمہ تمہاراحضور عالم کے حوالے ہوا ہے۔ وہ کا ہے کو پسند کریں گے کہ۔۔۔‘‘ 

منشی صاحب رک کر دیر تک کچھ سوچتے رہے۔ بیچ بیچ میں اپنے آپ سے باتیں بھی کرنے لگتے تھے۔ کچھ لوگوں کے نام بھی لیتے جاتے تھے۔ میاں صاحبان، مقبول الدولہ، راحت السلطان، امامن، اور معلوم نہیں کون کون۔ آخر میں کہنے لگے، ’’اچھا میاں کالے خاں، اللہ نے چاہا تو عرضی تمھاری حضرت کے ملاحظے سے گزرجائے گی، آگے تمہاری قسمت۔۔۔‘‘ 

میں نے منشی صاحب کو دعائیں دے دے کر ان کی تعریفیں شروع کردیں تو گھبرا کر بولے ، ’’ارے بھائی، ارے بھائی، کیوں گناہگار کرتے ہو؟ کام بنانے والا اللہ ہے۔ لو بس اب تم اپنے گھر کو سدھارو۔‘‘ 

وہ اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں چلنے لگا تو دروازے تک پہنچانے آئے۔ میں نے رخصت ہوتے وقت کہا، ’’منشی صاحب، اس کا اجر اللہ آپ کو دے گا۔ غریب آدمی ہوں، آپ کا حق محنت۔۔۔‘‘ 

’’ہا!‘‘منشی صاحب نے زبان دانتوں تلے دبالی، ’’اس کا تو نام بھی منھ سے نہ لینا‘‘ 

اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پھر وہی کہا، ’’بات یہ ہے کالے خاں، تمہارا قصہ ہمارے دل کو لگ گیا ہے۔‘‘ 

آصف الدولہ بہادر کے امام باڑے کا نوبت خانہ رات کا پچھلا پہر بجا رہا تھا۔ جمعراتی کی اماں بے چاری، میں نے سوچا، میرا راستہ دیکھتے دیکھتے سوگئی ہوں گی۔ انھیں جگانا اچھا نہیں معلوم ہوا، صبح تک شہر میں آوارہ گردی کرتا رہا۔ 

(۶) 

تین چار دن گزرے ہوں گے کہ کیا دیکھتا ہوں داروغہ نبی بخش دروازے پر کھڑے ہیں۔ میں گھبرا گیا، لیکن انھوں نے مجھے بولنے کا موقع ہی نہیں دیا، کہنے لگے، ’’ارے میاں کالے خاں، بھائی تم تو قیامت نکلے!‘‘ 

میں اور بھی گھبرا گیا، بولا، ’’داروغہ صاحب، واللہ مجھے کچھ خبر نہیں، کیا ہوا؟‘‘ 

’’کیا ہوا؟ ‘‘داروغہ بولے، ’’یہ ہوا کہ تمہاری عرضی حضرت سلطان عالم کی خدمت میں پہنچ گئی اور ملاحظے سے گزرتے ہی اس پر حکم بھی ہوگیا۔‘‘ 

’’حکم ہوگیا؟ ‘‘ 

میں نے بے تاب ہوکر کہا،’’کیا حکم ہوا داروغہ صاحب؟‘‘ 

’’سلطانی فیصلے ہم لوگوں کو بتائے جائیں گے؟ کیا بات کرتے ہو کالے خاں، لیکن اسے لکھ رکھو۔۔۔ اچھا، پہلے یہ بتاؤ، عرضی میں سارا حال لکھوادیا تھا؟ بٹیا کا بِن ماں کے ہونا، پہاڑی مینا کے لیے تمھیں دِق کرنا ، اور۔۔۔‘‘ 

’’اول سے آخر تک، ‘‘میں نے کہا، ’’عرضی میں نے دیکھی تو نہیں لیکن منشی امیر احمد صاحب نے کہا تھا جی لگاکر لکھوں گا۔‘‘ 

’’منشی امیر احمد صاحب؟‘‘ داروغہ تعجب سے بولے، ’’انھیں پکڑلیا؟ اماں ہم تمھیں ایسا نہیں سمجھتے تھے۔ وہی ہم کہیں یہ عرضی حضرت سلطان عالم تک پہنچ کیوں کر گئی؟‘‘ 

’’داروغہ صاحب، وہ ابھی آپ کیا کہہ رہے تھے؟‘‘ 

’’اماں جو کہہ رہے تھے وہ کہہ رہے ہیں۔‘‘ 

’’نہیں، وہ آپ نے کیا کہا تھا، اسے لکھ رکھو۔‘‘ 

’’وہ ،ہاں، ‘‘داروغہ کو یاد آگیا، ’’ہم کہہ رہے تھے اسے لکھ رکھو کہ تمھیں معافی مل گئی اور تمہاری بٹیا کو مینا۔‘‘ 

’’بٹیا کو مینا؟ ‘‘ میں حیران ہوکر بولا، ’’یہ کیا کہہ رہے ہیں داروغہ صاحب؟‘‘ 

’’تم ابھی بادشاہ کے مزاج سے واقف نہیں ہو،‘‘ داروغہ بولے، ’’آج جو سویرے سویرے بندے علی، ان کا چوبدار، مجھ سے تمہارا گھر پوچھنے آیا تو میں بھانپ گیا۔ بھئی جی خوش ہوگیا۔‘‘ 

لیکن میں نے دیکھا داروغہ بہت خوش نہیں ہیں۔ رکے رکے سے تھے اور معلوم ہوتا تھا کچھ اور بھی کہنا چاہتے ہیں۔ مجھے گھبراہٹ سی ہونے لگی۔ میں نے کہا، ’’داروغہ صاحب، آپ نے ہمیشہ میرے سر پر ہاتھ رکھا ہے۔ اس وقت آپ خوش نہ ہوں گے تو کون ہوگا۔ لیکن۔۔۔ داروغہ صاحب۔۔۔ کیا کچھ اور بات بھی ہے؟‘‘ 

داروغہ ذرا کسمسائے، پھر بولے، ’’کہہ نہیں سکتے کالے خاں، ہوسکتا ہے کوئی بات نہ ہو، ہوسکتا ہے بہت بڑی بات ہوجائے۔ مگر تمھاری خیر رہے گی۔‘‘ 

’’داروغہ صاحب، خدا کے لیے۔۔۔‘‘ 

اب داروغہ صاف پریشان نظر آرہے تھے۔ 

’’بھائی، ‘‘انھوں نے کہا،’’ تازہ واردات بھی سن لو۔آج نواب صاحب کے تین آدمی طاؤس چمن میں آئے تھے۔‘‘ 

’’نواب صاحب؟ ‘‘ 

’’ارے حضور عالم ، دستور معظم، وزیر اعظم، مدار الدولہ ، نواب علی نقی خاں بہادر، کہو سمجھے۔‘‘ 

’’سمجھا۔‘‘ 

’’یا شاید چار آدمی تھے،‘‘داروغہ نے یاد کرنے کی کوشش کی،’’خیر، ہوگا، انھیں نے مجھے طاؤس چمن میں بلوایا۔ میں گیا تو دیکھا، ایجادی قفس کے سامنے تنے ہوئے کھڑے ہیں۔ مجھے دیکھتے ہی بڑے تیوروں کے ساتھ پوچھنے لگے، ان میں فلک آرا کون سی مینا ہے۔ میں جل گیا، بولا انھیں میں کہیں ہوگی، میں کوئی سب کے نام یاد رکھتا پھرتا ہوں؟ ان کے بھی دماغ آسمان پر تھے، کہنے لگے اتنے دن سے داروغہ ہو اور جانور کو نہیں پہچانتے؟ میں نے کہا چلیے پہچانتے ہیں، نہیں بتاتے۔ آپ پوچھنے والے کون؟ بات بڑھنے لگی۔ ان میں ایک شاید نئے نئے مصاحبی میں آئے تھے، مونچھیں نکل رہی تھیں، ذرا صورت دار بھی تھے۔ انھوں نے کچھ زیادہ رنگ دکھانا شروع کیا تو میں نے کہا صاحبزادے صاحب، اپنا جوبن سنبھال رکھیے، پٹھان بچہ ہوں، جب تک داڑھی مونچھیں پوری نہ نکل آئیں میرے سامنے آگا پیچھا دیکھ کر آئیے گا۔‘‘ 

مجھے ہنسی آگئی۔ 

’’داروغہ صاحب، آپ کی زبان سے اللہ کی پناہ!‘‘ 

’’ہاں نہیں تو‘‘ داروغہ واقعی تاؤ میں آئے ہوئے تھے، اب وہ لگے ڈنکارنے۔ 

’’میں نے کہا میرے شہزادے، ہم خاصے کے شیروں کو نوالہ کھلاتے ہیں۔ لے بس اب چونچ بند کیجیے۔ نہیں اٹھا کر موہنی کے کٹہرے میں پھینکوں گا پہلے، نام پوچھوں گا بعد میں۔‘‘ شور سن کر محلات کے بہت سے آدمی نکل آئے، معاملہ رفع دفع کرایا۔ 

کچھ دیر ہم دونوں سوچ میں ڈوبے رہے، پھر میں نے کہا، ’’بری واردات ہوئی، داروغہ صاحب۔‘‘ 

’’واردات؟‘‘داروغہ بولے،’’واردات میرے یار ابھی تم نے سنی کہاں۔ اب سنو۔ 

محلات والوں میں نواب صاحب کے آدمیوں کے دوست آشنا بھی تھے، وہ ان کو الگ لے گئے۔ تب بھید کھلا کہ اس دن رزیڈنٹی کے جو صاحبان طاؤس چمن میں آئے تھے، ان میں سے کسی کو تمہاری مینا کے بے ہنگام بول بھاگئے۔ اس نے نواب صاحب سے اس کی تعریف کی۔ نواب صاحب کھٹ سے وعدہ کر بیٹھے کہ مینا رزیڈنٹی پہنچا دی جائے گی، یہی نہیں، اس کے لیے ایجادی قفس نے نمونے کا چھوٹا پنجرا بھی بنوالیا ہے۔‘‘ 

میں اتنی ہی دیر میں فلک مینا کو اپنے گھر کا مال سمجھنے لگا تھا۔ میں نے کہا، ’’لیکن مینا تو حضرت نے میری بیٹی کو عنایت کی ہے۔‘‘ 

’’کی ہے، درست، مگر نواب صاحب نے بھی تو گورے صاحب بہادر سے وعدہ کیا ہے۔‘‘ 

’’تو کیا نواب اپنے بادشاہ کا حکم نہیں مانیں گے اور اس۔۔۔‘‘ 

’’بس بس ، آگے کچھ نہ کہو، کالے خاں۔ تمھیں خبر نہیں یہاں کیا ہورہا ہے۔ مگر خیر، نواب صاحب بادشاہ کے حکم پر اپنا حکم تو کیا چلائیں گے، البتہ وہ مینا کو تم سے مول ضرور لیں گے، وہ بھی منھ مانگے داموں۔ اچھا ٹھیک ہے، بادشاہی تحفے اسی لیے ہوتے ہیں کہ آدمی انھیں بیچ باچ کے پیسے بنالے۔لیکن اتنا یاد رکھو کالے خاں، مینا اگر رزیڈنٹی پہنچ گئی تو بادشا ہ کو ملال ہوگا۔‘‘ 

’’ملال ہو ان کے دشمنوں کو ،‘‘میں نے کہا، ’’نواب صاحب خرید کا ڈول ڈالیں گے تو کہلادوں گا میری بیٹی راضی نہیں، اس نے مینا کو بہن بنایا ہے۔‘‘ 

’’اور نواب صاحب چپ ہوکے بیٹھ جائیں گے؟‘‘داروغہ فوراً بولے، ’’کہاں رہتے ہو بھائی؟ اچھا اب جو ہم کہہ رہے ہیں، ذرا دھیان سے سنو۔ چھوٹے میاں یاد ہیں؟‘‘ 

’’کون چھوٹے میاں؟‘‘ 

’’اماں وہی جن کے پاس تصویریں اتارنے والا ولایتی بکسا ہے۔ نام لو بھئی، ہمیں تو عرفیت ہی یاد رہتی ہے۔‘‘ 

’’اچھا وہ سے چھوٹے میاں؟ داروغہ احمد علی خاں، ‘‘ میں نے کہا،’’انھیں بھول جاؤں گا؟ حسین آباد مبارک میں کام کرچکا ہوں۔‘‘ 

’’بس تو اگر مینا تمہارے پاس پہنچ گئی تو وہ تمہارے گھر آئیں گے۔ جو وہ کہیں وہی کرنا۔ ذرا اس میں خلاف نہ ہو۔ اور دیکھو، پریشان نہ ہونا، تمہارا بھلا ہی بھلا ہوگا۔ اچھا ہم چلے۔ باقی چھوٹے میاں بتائیں گے۔‘‘ 

’’داروغہ صاحب، کچھ آپ بھی تو بتاتے جائیے، ‘‘ میں نے کہا،’’مجھے ابھی سے ہول ہورہی ہے۔‘‘ 

’’توسنو کالے خاں، ہم نہیں چاہتے کہ بادشاہی پرندہ رزیڈنٹی میں جائے۔ تم چاہتے ہو؟‘‘ 

’’زندگی بھر نہیں۔‘‘ 

’’جاؤ بس ، چین سے بیٹھو۔‘‘ 

داروغہ رخصت ہوئے تو میں گھر میں آیا۔ طاؤس چمن والے قصے کے بعد آج پہلی بار میں نے اپنی فلک آرا کو غور سے دیکھا۔ وہ بہت جھٹک گئی تھی۔ میں سجھ گیا اپنی مینا کے لیے ہڑک رہی ہے لیکن اس کا نام لیتے ڈرتی ہے۔ جی چاہا اسے ابھی بتادوں کہ تمہاری مینا تمہارے پاس آرہی ہے۔ لیکن ابھی مجھے خود ہی ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں معلوم تھا، اس کو کیا بتاتا۔ بس اسے گود میں لیے دیر تک ٹہلتا رہا۔ 

داروغہ نبی بخش کا خیال صحیح تھا۔دوسرے ہی دن سویرے سویرے شاہی چوبدار اور دو سرکاری اہلکار میرے دروازے پر آموجود ہوئے۔ داروغہ خود بھی ان کے ساتھ تھے، ان سے میری شناخت کراکے ایک اہلکار نے شاہی حکم نامہ پڑھنا شروع کیا جس کا مضمون کچھ اس طرح تھا، ’’کالے خاں ولد یوسف خاں کو معلوم ہوکہ عرض داشت اس کی حضور میں گزری۔ ہرگاہ طاؤس چمن کی مینا اسمی فلک آرا کو چرا کر اپنے گھر لے جانا اس کا بہ موجب اقرار اس کے ثابت ہے، بنابریں اس کو ملازمت سلطانی سے برطرف کیا گیا مگر تنخواہ اس کی بحال رہے گی۔ 

مینا اسمی فلک آرا کو تعلیم دینے کے جلدومیں مینا مذکورہ مسماۃ فلک آرا بیگم بنت کالے خاں کو بر سبیل انعام عطا ہوئی، ونیز خزانۂ عامرہ سے مینا مذکورہ کے دانے پانی کا خرچ ایک اشرفی ماہانہ مقرر ہوا ۔و نیز کالے خاں ولد یوسف خاں کو معلوم ہو کہ چوری اس گھر میں کرتے ہیں جہاں مانگے سے ملتا نہ ہو۔‘‘ 

اس آخری فقرے نے مجھے پانی پانی کردیا۔ سر جھکا کررہ گیا۔ اتنے میں دوسرے اہلکار نے سرخ بانات کے غلاف سے ڈھکا ہوا پنجرہ چوبدارکے ہاتھ سے لے کر میرے ہاتھ میں دیا۔ پھر کمر سے ایک چھوٹی سی تھیلی کھول کر مجھے دی اور اس کے اندر کی بارہ اشرفیاں میرے ہاتھ سے گنوائیں۔ بتایا یہ مینا کا سال بھر کا خرچ ہے، اور رسید نویسی کی مختصر کارروائی کے بعد مجھے مبارکباد دی۔ داروغہ نبی بخش نے بھی مبارکباد دی، پھر چوبدار سے کہا، ’’اچھا میاں بندے علی، ہمارا کام ختم ہوا؟ ‘‘ 

’’کام ہمارا بھی ختم ہوا، ‘‘اس نے جواب دیا، ’’کیوں داروغہ صاحب، ساتھ نہ چلیے گا؟ ‘‘ 

’’نہیں بھائی، سوچتے ہیں حسین آباد مبارک میں حاضری دے آویں۔‘‘ 

’’ہاں ہاں، ضرور جائیے۔‘‘ بندے علی نے بڑے تپاک سے کہا، ’’ہمارے لیے بھی دعا کردیجیے گا۔‘‘ 

’’لو ، یہ بھی کہنے کی بات ہے؟‘‘ 

داروغہ نے میری طرف دیکھا اور سر کے ہلکے سے اشارے سے پوچھا یاد ہے؟ میں نےبھی آہستہ سے سر ہلا دیا کہ یاد ہے۔ 

ان لوگوں کے جانے کے بعد گھر میں آیا تو معلوم ہوتا تھا خواب میں ہوا پر چل رہا ہوں۔ فلک آرا ابھی سورہی تھی۔ میں نے پنجرا صحن میں رکھ کر اس پر سے غلاف ہٹایا توآنکھیں چکاچوندہوگئیں۔ 

’’سونا! ‘‘میرے منھ سے نکلا اور پنجڑے کی خوبصورتی میری نگاہوں سے اوجھل ہوگئی۔ 

میں اندازہ لگانے کی کوشش کرنے لگا کہ اس کی مالیت کتنی ہوگی۔ اسی وقت مجھے فلک مینا کی ہلکی سی آواز سنائی دی۔ وہ میری طرف مچی مچی آنکھوں سے دیکھ رہی تھی۔ پھر اس نے سر اوپر نیچے کیا اور پر چلا کر زور زرو سے چہچہانے لگی۔ میں دوڑتا ہوا کوٹھری میں گیا اور اس کا پرانا پنجرا نکال لایا۔ مینا کو اس پنجرے سے اس پنجرے میں کرکے نیا پنجرا کوٹھری میں چھپا رہا تھا کہ باہر سے فلک آرا کی آواز سنائی دی، ’’ہماری مینا اچھی ہوگئی، ہماری مینا اچھی ہوگئی۔‘‘ 

میں کوٹھری سے باہر آیا تو اس نے چہک چہک کر مجھے بھی یہ خبر سنائی۔ لیکن میں دوسری فکروں میں تھا۔ 

’’اچھا پہلے منھ ہاتھ دھولو، پھر اس سے جی بھر کے باتیں کرنا، ‘‘میں نے اس سے کہا اور باہر دروازے پر جا کھڑا ہوا۔ 

گھر کے اندر سے مینا کے چہچہانے اور فلک آرا کے کھلکھلانے کی آوازیں چلی آرہی تھیں۔ واقعی ایسا معلوم ہوتا تھا کہ دو بہنیں بہت دن بعد ملی ہیں۔ آوازیں دم بھر کو رکیں، پھر میں نے سنا، ’’فلک آرا شہزادی ہے، دودھ جلیبی کھاتی ہے، کالے خاں کی گوری گوری بیٹی ہے۔‘‘ 

پھر ہنسی، پھر تالیوں کی آواز۔ 

میں سمجھ نہیں سکا کہ یہ فلک آرا تھی یا اس کی مینا۔ 

(۷) 

دن بھر میں کبھی گھر میں آتا، کبھی دروازے پر جاتا۔ ہر وقت مجھے گمان تھا کہ داروغہ احمد علی خاں آتے ہی ہوں گے، لیکن دروازے پر دیر تک ان کی راہ دیکھنے کے بعد پھر گھر میں آجاتا۔ آخر قریب شام وہ آتے دکھائی دیے۔ ان کے ساتھ ایک آدمی اور تھا۔ کچھ دیہاتی سا معلوم ہوتا تھا، لنگی باندھے، موٹا کرتا پہنے، کمر میں چادر لپٹا ہوااور سر پر بڑا سا صافہ جس کا شملہ اس نے منھ پر اس طرح لپیٹ لیاتھا کہ صرف آنکھیں اور ناک کا آدھا بانسہ کھلا رہ گیا تھا۔ مجھے اس کی آنکھوں کی چمک سے کچھ ڈر سا لگا۔ اتنی دیر میں وہ دونوں دروازے پر آپہنچے۔ علیک سلیک ہوئی۔ احمد علی خاں نے جلدی جلدی میرا حال احوال پوچھا، پھر صافے والے آدمی کی طرف اشارہ کرکے پوچھا، ’’انھیں پہچانتے ہو کالے خاں؟ ‘‘ 

’’صورت دیکھوں تو شاید پہچان لوں۔‘‘ 

’’نہیں ،یوں ہی پہچانتے ہو؟‘‘ 

انھوں نے پوچھا، پھر پوچھا، ’’آگے کبھی کہیں دیکھو گے تو پہچان لوگے؟ ‘‘ 

’’ان کے ڈھانٹے کو پہچانوں تو پہچانوں۔‘‘ 

’’قاعدے کی کہی،‘‘د اروغہ سر ہلا کر بولے، ’’اچھادیکھو ، یہ بادشاہی مینا اور انعامی پنجرے کے خریدار ہیں۔ بولو، کیا کہتے ہو؟‘‘ 

میرے منھ سے صاف انکار نکلتے نکلتے رہ گیا۔ میں نے کہا، ’’میں کیا کہوں، داروغہ صاحب، آپ مختار ہیں۔‘‘ 

’’اچھا تو تم نے ہمیں اپنا مختار کیا؟‘‘ 

’’کیا۔‘‘ 

’’تو مینا تمہاری ہم نے ان کے ہاتھ بیچی۔پنجرہ بھی بیچا۔ پیسے سوچ سمجھ کر طے کرلیں گے، ‘‘داروغہ نے کہا، پھر اس آدمی سے بولے، ’’لیجیے انھیں بیعانہ دیجیے، قسم بھی دیجیے۔‘‘ 

آدمی نے ایک روپیہ میرے ہاتھ پر رکھ دیااور بولا ، ’’کالے خاں ولد یوسف خاں ، کلام پاک کی قسم کھاؤ، کسی کو نہیں بتاؤ گے کہ مینا تم نے کتنے کی بیچی۔ پنجرے کے پیسے البتہ بتادینا۔مینا کے پیسے کوئی پوچھے تو کہہ دینا ہم پر قسم پڑچکی ہے۔‘‘ 

میں نے قسم کھائی۔ چھوٹے میاں نے مجھ سے کہا، ’’جاؤ، ذرا بیٹا کو بہلا کر مینا اور پنجرہ لے آؤ۔‘‘ 

میں گھر کے اندر آیا۔ فلک آرا پنجرے کے پاس بیٹھی تھی۔ میں نے اس سے کہا، ’’فلک آرا بیٹی، اب اس کے بسیرے کا وقت ہے۔نیند خراب کروگی تو پھر بیمار ہوجائے گی۔ ہم اسے ہوا کھلا کے لاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا ہے۔‘‘ 

فلک آرا جلدی سے اٹھ کر اندر دالان میں چلی گئی۔ میں نے کوٹھری سے شاہی پنجرا نکالا، فلک مینا کا بھی پنجرا اٹھایا اور باہر آگیا۔ داروغہ چھوٹے میاں خوش ہوکر بولے، ’’پنجرا بدل دیا؟ اچھا کیا کالے خاں۔‘‘ 

انھوں نے دونوں چیزیں آدمی کو دے دیں اور پوچھا، ’’پنجرا پایا؟‘‘ 

’’پایا، ‘‘وہ بولا۔ 

’’مینا پائی؟‘‘ 

’’پائی۔‘‘ 

’’سدھاریے۔‘‘ 

آدمی دونوں پنجرے اٹھائے ہوئے مڑا اور روانہ ہوگیا۔ میں اس کے پیچھے لپکنے ہی کو تھا کہ چھوٹے میاں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میں بولا، ’’داروغہ صاحب، مینا کے بغیر میری بیٹی۔۔۔‘‘ 

’’غم کھاؤ، کالے خاں، غم کھاؤ‘‘انھوں نے کہا اور سامنے اشارہ کیا۔ 

ڈھانٹے والا آدمی واپس آرہا تھا۔ شاہی پنجڑا اس نے کمر کے چادرے میں لپیٹ کر سر پر رکھ لیا تھا اور بالکل دھوبی معلوم ہورہا تھا۔ قریب آکر اس نے مینا والا پنجرہ چھوٹے میاں کے ہاتھ میں دے دیا اور تیز قدموں سے واپس چلا گیا۔ 

سورج ڈوب چکا تھا اور چھوٹے میاں کا چہرہ مجھے ٹھیک سے نظر نہیں آرہا تھا۔ انھوں نے پنجرا میرے ہاتھ میں دے دیا۔ مجھے کچھ بے چینی سی ہورہی تھی۔ وہ بولے، ’’تمہاری خیر ہی خیر ہے، کالے خاں، بشرط ٹھنڈے ٹھنڈے بات کرو۔ نہ آپ غصے میں آؤ نہ دوسرے کو غصہ دلاؤ۔اور بھائی آج سویرے سے نہ سوجانا۔‘‘ 

’’سویرے سے؟‘‘میں نے کہا،’’آج نیند کس کو آتی ہے، داروغہ صاحب۔‘‘ 

’’ارے بھائی کہہ جو دیا تمہاری خیر ہے۔ بس ٹھنڈے رہنا پر ضرور ہے۔‘‘ 

وہ واپس گئے۔ میں پنجرا لیے گھر میں آیا۔ اسے صحن کی الگنی میں ٹانگتے ٹانگتے میں نے کن انکھیوں سے دیکھا۔ فلک آرا دالان کے کھمبے کی اوٹ سے جھانک رہی تھی۔ میں نے جاکر اسے تخت پر لٹا دیا۔ مینا کی باتیں کرتے کرتے وہ جلدی ہی سوگئی۔ میں اسے کچھ اڑھانے کے لیے اٹھا تھا کہ داروغہ نبی بخش نے دھیرے سے دروازہ تھپتھپا یا۔ 

’’سب انتظام ہوگیا، ‘‘انھوں نے کہا،’’کچھ کہو نہیں، بس چلے چلو۔بٹیا اور اس کی مینا کو لے لو۔ گھر میں کوئی اور تو نہیں ہے؟‘‘ 

’’کوئی نہیں، ‘‘میں نے کہا، پھر مجھے یاد آگیا، ’’بس جمعراتی کی اماں ہیں۔‘‘ 

’’یہ کون ہیں؟خیر، انھیں بھی لو، ڈولی ساتھ لایا ہوں۔ اور ذرا جلدی کرو کالے خاں۔‘‘ 

’’اور داروغہ صاحب، گھر کا سامان؟‘‘ 

’’تم تو ابھی واپس آؤ گے۔ بس بٹیا، اور وہ کس کی اماں ہیں، ان کا سامان اٹھاؤ۔ایک دو عدد چاہے اپنے بھی رکھ لو۔‘‘ 

(۸) 

حسین آباد میں ست کھنڈے کے پیچھے نرکلوں کے ایک قطعے کے نشیب میں الماس خانی اینٹوں کا چھوٹا سا محمد علی شاہی مکان تھا۔ وہاں ہم لوگ اترے۔ صاف ستھری جگہ تھی، جھاڑو دی ہوئی،لوٹوں گھڑوں میں تازہ پانی بھرا ہوا، دالان میں چوکی پر کنول جل رہا تھا۔فلک آرا سورہی تھی۔ میں نے اسے ایک پلنگڑی پر لٹا کر مینا کا پنجڑہ سرہانے ٹانگ دیا۔ سامان رکھنے دھرنے میں کچھ دیر نہیں لگی۔ داروغہ ہمیں اتارکر کہیں چلے گئے تھے۔ ذرا دیر میں واپس آئے۔ مجھے دروازے پر بلایا۔ کمر سے ایک تھیلی کھول کر مجھے دی اور بولے، ’’پنجرا بک گیا۔ رقم چھوٹے میاں کی تحویل میں ہے۔اوپر کے خرچے کے واسطے یہ سوروپے گنو۔ یا کہو پوری رقم ابھی دلوادوں؟‘‘ 

’’نہیں داروغہ صاحب،‘‘میں گھبرا کر بولا،’’میراتو اتنی ہی چاندی دیکھ کر دَم الٹا جارہا ہے۔‘‘ 

داروغہ ہنسنے لگے، پھر بولے، ’’اور دانے پانی کی اشرفیوں کو بھول گئے؟‘‘ 

میں واقعی بھول گیا تھا، بلکہ اس وقت مجھ کو یہ بھی یاد نہیں آرہا تھا کہ میں نے اشرفیاں کیا کیں؟ داروغہ نے میری سراسیمگی دیکھی تو پوچھنے لگے، ’’کیا ہو گیا بھائی؟‘‘ 

اسی وقت مجھے یاد آگیا۔دوڑتا ہوا مکان میں گیا، ایک بقچہ کھولا،شاہی پنجرے کے غلاف میں لپٹی ہوئی اشرفیاں اٹھائیں اور باہر آکر داروغہ کی طرف بڑھا دیں۔ 

’’داروغہ صاحب ،میں انھیں کہاں رکھوں گا؟‘‘میں نے کہا،’’ان کو اپنی تحویل میں لیجیے، خواہ چھوٹے میاں کے پاس رکھ دیجیے۔‘‘ 

’’اوروں پر اتنا اعتبار نہ کیا کرو کالے خاں،‘‘انھوں نے کہا۔ 

’’شرمندہ نہ کیجیے داروغہ صاحب،‘‘میں نے کہا،’’آپ لوگ کوئی اور ہیں؟‘‘ 

’’شاباش ہے تم کو‘‘ داروغہ نے کہا اور اشرفیاں کمر بند میں رکھ لیں، پھر بولے،’’اچھا،کھانا آتا ہوگا، کھاپی کراپنے مکان کو سدھارو۔ رات کو وہیں رہا کرنا،دن کا تمھیں اختیار ہے۔حضور عالم کے آدمی اگر آئیں تو دل جمعی کے ساتھ ان سے بات کرنا۔ اور دیکھو، چھوٹے میاں کا نام نہ آنے پائے۔وہ تو کہتے ہیں آئے اور مکرر آئے، بگڑے دل آدمی ہیں، لیکن خواہی نخواہی کا تہوّر دکھانے سے فائدہ؟ تم خیال رکھنا۔ سمجھو وہ تمہارے گھر آئے ہی نہیں تھے۔ اچھا، اللہ حافظ۔‘‘ 

زیادہ رات نہیں گئی تھی کہ میں اپنے مکان پر پہنچ گیا۔ فلک آرا کے بغیر اچھا نہیں معلوم ہورہا تھا۔ بستر پر پڑا کروٹیں بدلتا رہا۔ دل بول رہا تھا کچھ ہونے والا ہے۔ آخر مجھ سے لیٹا نہ گیا۔ اٹھ کر مکان سے باہر نکل آیا۔ دروازے کے سامنے ٹہلنے لگا۔ 

رات تھوڑی اور گئی تو میں نے دیکھا دو جلتی ہوئی مشعلیں میرے مکان کی طرف بڑھ رہی ہیں۔ میں تیزی سے گھر میں داخل ہوا اور دروازہ اندر سے بند کرکے بستر پرجالیٹا۔ ذرا دیر میں دستک ہوئی۔ 

مشعلچیوں کے علاوہ چار آدمی اور تھے۔ انھوں نے میرا نام وغیرہ دریافت کیا، روکھے پن سے شاہی انعام کی مبارکباد دی، پھر مینا کو پوچھا کہاں ہے۔ 

’’بک گئی،‘‘میں نے کہا۔ 

’’بک گئی؟‘‘ ایک نے حیرت سے پوچھا،’’آج کے آج؟‘‘ 

’’میں فقیر آدمی، بادشاہی پرندے کو گھر میں کہاں رکھتا؟‘‘ 

اس کے بعد ان لوگوں نے سوالوں کی بوچھار کردی۔ مشعلوں کی روشنی سیدھی میرے منھ پر پڑ رہی تھی اور میرا ڈر بڑھتا جارہا تھا، لیکن میں نے اپنے حواس بحال رکھے اور ہر سوال کا فوراً جواب دیا۔ 

’’کس نے خریدی؟‘‘ 

’’معلوم نہیں، وہ چہرے چھپائے ہوئے تھا۔‘‘ 

’’دیکھو گے تو پہچان لو گے؟‘‘ 

’’نہیں ، وہ چہرہ چھپائے ہوئے تھا۔‘‘ 

’’کتنے میں بیچی؟‘‘ 

’’نہیں بتا سکتا، اس نے قسم دے دی ہے۔‘‘ 

’’کیوں؟‘‘ 

’’وہ جانے۔‘‘ 

’’چھوٹے میاں آئے تھے؟‘‘ 

’’کون سے چھوٹے میاں؟‘‘ 

اس کے بعد کچھ دیر خاموشی رہی، پھر پوچھا گیا، ’’تو مینا بک گئی؟‘‘ 

’’بک گئی۔‘‘ 

’’پیسے کیا کیے؟‘‘ ایک نے پوچھا،’’ ہم مدارالدولہ بہادر کے آدمی ہیں، ذرا سوچ سمجھ کر بات کرنا۔ پیسے کیا کیے، کالے خاں؟‘‘ 

’’ابھی صرف بیعانہ لیا ہے۔‘‘ 

’’کتنا؟‘‘ 

’’ایک روپیہ،‘‘ میرے منھ سے نکل گیا۔ 

پھر مجھے پسینے چھوٹنے لگے۔ کون مان سکتا تھا کہ میں نے صرف ایک روپیہ لے کر سونے کا پنجرا اور بادشاہی پرندہ کسی انجانے آدمی کے ہاتھ میں پکڑا دیا ہوگا۔اسی وقت کسی نے کڑک کر کہا، ’’کالے خاں سوچ سمجھ کر بات کرو۔‘‘ 

ایسی آواز تھی کہ گلی کے کئی گھروں سے آدمی باہر نکل آئے۔ میں خاموش کھڑا تھا۔آگے والے مشعلچی نے اپنی مشعل اس ہاتھ سے اس ہاتھ میں لی۔ مشعل کا شعلہ لہرایا اور بولنے والے کے منھ پر روشنی پڑی۔ نوجوان آدمی تھا۔ نوجوان کیا لڑکا کہنا چاہیے۔ پوری مونچھیں بھی نہیں نکلی تھیں۔ صورت اچھی تھی۔ اس نے پھر کڑک کر کہا، ’’کالے خاں تم اس آدمی کو نہیں پہچانتے؟‘‘ 

اچانک میرا ڈر ہوا ہوگیا۔ 

’’چلیے پہچانتے ہیں،‘‘ میں نے کہا،’’مگرنہیں بتاتے۔ آپ پوچھنے والے کون؟‘‘ 

وہ لوگ کچھ دیر تک خاموش کھڑے مجھے گھورتے رہے، پھر سب ایک ساتھ مڑے اور واپس چلے گئے۔ محلے والے بڑھ کر میرے قریب آگئے۔ پوچھنے لگے کیا ہوا، کیا ہوا۔ 

’’کچھ نہیں،‘‘ میں نے کہا،’’برا زمانہ آگیا ہے۔‘‘ 

میں نے گھر کا دروازہ بھی اندر سے بند نہیں کیا۔ بستر پر لیٹ کر سوچتا رہا۔ 

’’بات بگڑ گئی، کالے خاں،‘‘ آخر میں نے خود سے کہا۔ 

اور سچ کہا۔ دوسرے دن سویرے سویرے مجھے گرفتار کرلیا گیا۔ میرے گھر سے ایجادی قفس کی ایک گنگا جمنی کٹوری برآمد ہوئی تھی۔ 

(۹) 

میں بھول چکا ہوں کہ میں نے قید خانے میں کتنی مدت گزاری۔ مجھے تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ میری ساری عمر اسی پنجرے میں گزری جارہی ہے۔قیدیوں میں زیادہ تر لکھنو کے اوباش اور اٹھائی گیرے تھے۔ان سے میرا دل نہیں ملا۔ سب سے الگ تھلگ رہتا۔ فلک آرا بہت یاد آتی تھی۔ کبھی کبھی تو کہیں بالکل قریب سے اس کے کھلکھلانے اور فلک مینا کے چہچہانے کی آوازیں کانوں میں آنے لگتیں، بڑی بے چینی ہوتی ، لیکن یہ سوچ کر کچھ اطمینان ہوجاتا تھا کہ اپنی مینا کے ساتھ اس کا جی بہلا رہتا ہوگا اور بنی بخش اور چھوٹے میاں اس کی خبر گیری مجھ سے زیادہ کررہے ہوں گے۔ سب سے بڑھ کر پیسے کا اطمینان تھا۔ اپنی تنخواہ تو خیر اب کیا ملتی، لیکن فلک مینا کی ماہانہ ایک اشرفی اور شاہی پنجرے کی قیمت ملا کر میرے لیے اتنی دولت تھی کہ کبھی سوچتا تو سمجھ میں نہ آتا تھا اسے کہاں تک خرچ کروں گا۔ پھر سوچنے لگا کہ اسے خرچ کرنے کی نوبت بھی آئے گی یا قیدخانے ہی میں گھٹ گھٹ کر مرجاؤں گا۔ بڑا جی چاہتا کہ کسی طرح پھر بادشاہ کو عرضی پہنچوادوں۔ ابھی تو میرا مقدمہ ہی نہیں بنا تھا۔ کچھ پتا نہیں تھا کہ مقدمہ کب شروع ہوگا اور اس کے بعد اگر قید کی سزا ملے گی تو کتنے دن کی ملے گی۔ 

لیکن ایک دن کچھ کہے سنے بغیر اچانک میں رہا کردیا گیا۔ مجھے خیال ہوا کہ شاید داروغہ نبی بخش نے منشی امیر احمد صاحب کو پکڑلیا، لیکن باہر نکلنے لگا تو دیکھا میری طرح اور بھی، شاید سبھی قیدی چھوڑ دیے گئے ہیں۔ بڑا شور ہورہا تھامگرمیں ایک کنارے ہوکر باہر نکل آیا اور سیدھا ست کھنڈے کی طرف چلا۔ 

کچھ دور تو میں اپنی دھن میں نکلا چلا گیا، پھر مجھے سب کچھ بدلا بدلا معلوم ہونے لگا۔ شہر پر عجیب مردنی سی چھائی ہوئی تھی۔ چوڑے راستوں پر گوروں کے فوجی دستے گشت کررہے تھے اور میں جس گلی میں مڑتا اس کے دہانے پر انگریزی فوج کے دو تین سپاہی جمے ہوئے نظر آتے تھے۔گلیوں کے اندر لوگ ٹولیاں بنائے چپکے چپکے آپس میں باتیں کررہے تھے۔ مجھے گھر پہنچنے کی جلدی تھی اس لیے کہیں رکا نہیں۔ لیکن ہر طرف ایک ہی گفتگو تھی، رکے بغیر بھی مجھے معلوم ہوگیا کہ اودھ کی بادشاہی ختم ہوگئی ، سلطان عالم واجد علی شاہ کو تخت سے اتاردیا گیاہے۔ وہ لکھنو چھورکر چلے گئے ہیں۔ اودھ کی سلطنت انگریزوں کے ہاتھ میںآگئی ہے اور اس خوشی میں انھوں نے بہت سے قیدیوں کو آزاد کیا ہے۔ 

از آنجملہ میں بھی تھا۔ ایسا معلوم ہوا کہ ایک پنجڑے سے نکل کر دوسرے پنجڑے میں آگیا ہوں۔ جی چاہا لوٹ کر قید خانے میں چلاجاؤں، پھر فلک آرا کا خیال آیا اور میں ست کھنڈے کی سیدھی سڑک پر دوڑنے لگا۔ 

گھر پہنچا تو سب کچھ پہلے کی طرح نظر آیا۔ فلک آرا پہلے تو مجھ سے کچھ کھنچی کھنچی رہی، پھر میری گود میں بیٹھ کر اپنی مینا کے نئے نئے قصے سنانے لگی۔ 

لکھنو میں میرا دل نہ لگنا اور ایک مہینے کے اندر بنارس میں آرہنا، ستاون کی لڑائی، سلطان عالم کا کلکتے میں قیدہونا، چھوٹے میاں کا انگریزوں سے ٹکرانا، لکھنو کا تباہ ہونا، قیصر باغ پر گوروں کا دھاوا کرنا، کٹہروں میں بند شاہی جانوروں کا شکار کھیلنا، ایک شیرنی کا اپنے گورے شکاری کو گھائل کرکے بھاگ نکلنا، گوروں کا طیش میں آکر داروغہ نبی بخش کو گولی مارنا، یہ سب دوسرے قصے ہیں اور ان قصوں کے اندر بھی قصے ہیں۔ 

لیکن طاؤس چمن کی مینا کا قصہ وہیں پر ختم ہوجاتا ہے جہاں ننھی فلک آرا میری گود میں بیٹھ کر اس کے نئے نئے قصے سنانا شروع کرتی ہے۔ 

   1
0 Comments